کانگریس کے انتخابی منشور سے بی جے پی پریشان

   

عرفان عزیز
کانگریس کے انتخابی منشور کی اجرائی کے بعد سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمراں بی جے پی پریشان ہوگئی ہے اور اس کے قائدین بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر ملک کی سب سے قدیم اس پارٹی (کانگریس) کے انتخابی منشور کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ بی جے پی اور خود وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگ کا منشور قرار دیا حالانکہ کانگریس کے 48 صفحہ پر مشتمل انتخابی منشور میں مساوات سماجی انصاف، مذہبی و لسانی اقلیتوں کے جمہوری و دستوری حقوق کے تحفظ، بزرگ شہریوں، معذورین اور ایل جی بی ٹی کیو آئی اے کمیونٹی کیلئے بہبودی ، اقدامات، انہیں مراعات کی فراہمی، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقعوں ملازمتوں کی فراہمی تعلیمی شعبہ، کھیل کود کے میدان میں انقلابی اقدامات، خواتین کو بااختیار بنانے مہا لکشمی جیسی اسکیمات، کسانوں کے مسائل کے حل، انہیں ان کی پیداوار کی بہترین قیمتیں ادا کرنے ماہی گیری، ماہی گیروں کی ترقی و بہبود مزدوروں کی مدد جمہوریت و دستور کے تحفظ، ملک میں آج جس طرح کے خوف کا ماحول ہے اس خوف کے خاتمہ، آزادی کی بحالی خسارہ اعتماد کو ختم کرنا، میڈیا، عدلیہ، انسداد رشوت ستانی، تہذیب و تمدن اور ثقافت، معیشت، ملک و قوم کے مفاد میں معاشی پالیسیوں ٹیکس اصلاحات صنعت و حرفت کی ترقی بنیادی سہولتوں کے فروغ وفاقیت، مرکز۔ ریاست تعلقات، دیہی اور شہری ترقی، شمالی ریاستوں میں ترقیاتی پراجکٹ قومی سلامتی بالخصوص داخلی سلامتی، دفاعی شعبہ کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی، ماحولیات موحولیاتی تبدیلی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، واٹر مینجمنٹ اور حفظان صحت وغیرہ جیسے اہم امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک لوک سبھا انتخابات کا سوال ہے یہ انتخابات کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ کانگریس لیڈر راہول گاندھی کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے عوام کو ملک کی موجودہ صورتحال بی جے پی کی نفرت کی سیاست دستور ہند میں تبدیلی اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی کوششوں کے خلاف واقف کرواتے ہوئے کچھ یوں کہا تھا ’’بہت ضروری ہے کہ عوام اس بات کو سمجھیں کہ یہ نارمل انتخابات نہیں ہیں بلکہ یہ جمہوریت اور دستورکو بچانے کا الیکشن ہے، اسے لڑنا اور جیتنا بہت ضروری ہے۔ یہ الیکشن 2-3 فیصد یا 5 فیصد اور باقی ہندوستان کے درمیان مقابلہ ہے اور باقی ہندوستان جو چاہتا ہے وہ اس انتخابی منشور میں ہے اور جو 2 فیصد چاہتا ہے اور جو اڈانی چاہتے ہیں وہ آپ ان (بی جے پی) کا انتخابی منشور دیکھ لیجئے، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ان کی کیا ضروریات اور ترجیحات ہیں۔ بہرحال کانگریس نے اپنے 48 صفحات پر مشتمل انتخابی منشور کو بیائے پتر (انصاف نامہ) کا نام دیاہے جس میں ایک باب تعارف کا ہے۔ تعارف میں بتایا گیا کہ انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے 138 سالہ سفر کے ہر مرحلہ میں بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات تمام ہندوستانیوں کے مسائل ان کے حل، ترقی، امنگوں اور امیدووں سے خود کو جوڑے رکھا۔ جدوجہد آزادی کے دوران کانگریس کا اولین مقصد ملک کو انگریزوں کی غلامی و تسلط سے آزادی دلانا تھا۔ جدوجہد آزادی کی رہنمائی مہاتما گاندھی جیسے عظیم لیڈروں نے کی اور ان رہنمائوں کی خصوصی حکمت عملی اور قربانیوں کے نتیجہ میں ملک کو آزادی حاصل ہوئی اور کانگریس ہمیشہ سے ہی چاہے وہ آزادی سے پہلے ہو یا آزادی کے بعد، ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لیے امید کی کرن رہی ہے۔ انتخابی منشور میں عوام کو یہ بھی بتایا گیا کہ آزادی کے ساتھ ہی یعنی 1947 سے ہی کانگریس ملک کے لیے امید کی کرن رہی۔ کانگریس کی پالیسیوں نے بنیادی طور پر زرعی معیشت یا زرعی شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ اس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پھر ہندوستان کو ایک قحط زدہ ملک سے ایک ایسے ملک میں تبدیل کردیا جو دنیا بھر کے ملکوں کو غذائی اجناس برآمد کرتا ہے۔ کانگریس نے ہی ہندوستان کو ایک عالمی سافٹ ویر پاور ہائوس کے طور پر ہندوستان کے عروج کی سائنس اور ٹیکنیکی بنیاد رکھی اور دنیا کی تعمیر کی تحقیق اور اتعلی تعلیمی ادارے قائم کئے۔ فراخدلانہ معاشی پالیسی اور معاشی اصلاحات کے تحت کانگریس نے ملک کی معاشی ترقی کو بڑھاوا دیا اور ہندوستان کے ہر شہری کو معاشی ترقی کی کہانی کا حصہ بنایا۔ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کی معاشی پالیسیوں، معاشی اصلاحات کے نتیجہ میں ہی ہندوستان 2008ء کے علاوہ معاشی بحران، کووڈ 19 کی عالمی وباء (2020) نوٹ بندی (2016)کے جھٹکوں کو برداشت کرسکا۔ واضح رہے کہ 2019ء کے عام انتخابات کے لئے کانگریس نے 54 صفحات پر مشتمل انتخابی منشور جاری کیا۔ انتخابی منشور میں مساوات کے باب میں سماجی انصاف عنوان کے تحت بتایا گیا کہ کانگریس نے گزشتہ 70 برسوں میں پسماندہ طبقات و قبائل اور مظلوم و کمزور طبقات کی ترقی کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور کمزور طبقات کے کاز کو چھین رہی ہے۔ اس کے باوجود درج فہرست طبقات و قبائل اور کمزور طبقات ہنوز پیچھے ہیں، پسماندہ ہیں۔ ایس سی ایس ٹی اور او بی سی ملک کی آبادی کا تقریباً 70 فیصد ہے۔ اعلی درجہ کے پیشوں خدمات اور کاروبار میں ان کی نمائندگی غیر متناسب اور کم ہے۔ چنانچہ کانگریس کا یہ ایقان ہے کہ درج فہرست طبقات و قبائل اور کمزور ذاتوں کی ترقی کے بغیر ملک کی ترقی ناممکن ہے۔ ایسے میں کانگریس ذاتوں اور ذیلی ذاتوں اور ان کے سماجی و اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کے لیے قومی سطح پر ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائے گی اور اس کی بنیاد پر معاشی پالیسی سے متعلق ایجنڈہ کو مضبوط کیا جائے گا۔ انتخابی منشور میں یہ بھی کہا گیا کہ کانگریس اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ وہ ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کے تحفظات (ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں) پر موجودہ 50 فیصد کی حد بڑھانے کے لیے دستور فراہم کو منظور کروائے گی اس کے علاوہ اندرون سال ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کی مخلوعہ جائیدادوں کو پر کیا جائے گا۔ کانگریس سرکاری اور عوامی شعبہ کے اداروں میں باقاعدہ ملازمتوں کے کنٹریکٹ کو ختم کرے گی اور اس طرح کے تقررات کو باقاعدہ بنانے کو یقینی بنائے گی۔ ایس سی ایس ٹی او بی سی طلبہ کی اسکالرشپس کے لیے مختص فنڈ کو دگنا کیا جائے گا۔ پی ایچ ڈی طلبہ کے وظائف کو بھی دگنا کیا جائے گا۔ انتخابی منشور میں یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ کانگریس اسکولوں کے نصاب میں سماجی انصاف کے پیغام کو پھیلانے کے لیے سماجی مصلحین کی زندگی اور کام کو شامل کیا جائے گا۔ کانگریس ہاتھوں سے غلاظت صاف کرنے والے صفائی کرمچاریوں کو ہندرمند بنائے گی اور موریوں وغیرہ کی صفائی کے لیے مشینوں کا استعمال کیا جائے گا۔ تعلیمی اداروں میں پسماندہ اور مظلوم طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کو دور کرنے کے لیے روہت ویمولا ایکٹ نافذ کرے گی۔ انتخابی منشور میں اس بات کا بھی وعدہ کیا گیا کہ ہم ملک میں ایک تنوع کمیشن قائم کریں گے جو سرکاری اور خانگی ملازمتوں میں تنوع کو فروغ دے گا۔ انتخابی منشور میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے دستوری و جمہوری حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے اور کہا کہ کانگریس کا ماننا ہے کہ آمریت یا اکثریت پسندی کے لیے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے کیوں کہ لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو آئین ہند کے تحت انسانی اور شہری حقوق حاصل ہیں۔ کانگریس ان حقوق کو برقرار کھنے اور ان کے تحفظ کا عہد کرتی ہے اور کانگریس اپنے مذہب اپنے عقیدہ پر عمل کرنے کے بنیادی حق اور دستور کی دفعات 15، 16، 25، 26، 28، 29 اور 30 کے تحت مذہبی اقلیتوں کو دیئے گئے حقوق کا احترام کرے گی اور اس حق کو برقرار رکھے گی۔ انتخابی منشور میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم دستور کی دفعات 15، 16، 29 اور 30 کے تحت اقلیتوں کو فراہم کردہ حقوق کا بھی تحفظ کریں گے۔ ساتھ ہی کانگریس انتخابی منشور میں اقلیتی طلبہ اور نوجوانوں کو تعلیم و روزگار تجارت (کاروبار) خدمات، کھیل کود تہذیب و ثقافت اور دوسرے شعبوں میں بڑھتے ہوئے مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی حوصلہ افزائی اور مدد کرے گی۔ کانگریس بیرون ملکوں کی باوقار یونیورسٹیز میں تعلیم کے لیے مولانا آزاد اسکالرشپس کو بحال کرے گی اور اسکارلشپس کی تعداد میں اضافہ بھی کرے گی۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کو معاشی لحاظ سے بااختیار بنانا بہت ضروری ہے۔ ایسے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ بینکس بناء کسی امتیازی سلوک کے اقلیتوں کو ادارہ جاتی قرض فراہم کریں۔ کانگریس تعلیم، نگہداشت صحت سرکاری ملازمتوں سرکاری کاموں ہنرمندی، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں بلالحاظ امتیاز مواقع فراہم کرے گی۔ جہاں تک پرسنل لا کا سوال ہے کانگریس پرسنل لاز میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ان اصلاحات کو متعلقہ برادریوں کی شراکت اور رضامندی سے کیا جانا چاہئے۔ کانگریس بریل رسم الخط اور اشاروں کی زبان کو بطور زبان تسلیم کریں گے۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں بیروزگاری کو دور کرنے 25 سال سے کم عمر کے ڈپلوما ہلوڈر یا کالج گریجویٹ کو خانگی یا عوامی شعبہ کی کمپنی کے ساتھ ایک سال کی اپرنٹس شپ فراہم کرنے نئے رائٹ ٹو اپرنٹس شپ ایکٹ کی ضمانت دے گی۔ اپرنٹس کو سالانہ ایک لاکھ روپئے ملیں گے۔ اس کے علاوہ کانگریس مرکزی حکومت کی 30 لاکھ مخلوعہ جائیدادوں کو پر کرے گی۔ بہرحال کانگریس نے عدلیہ اور مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں و اداروں پر دبائو کو روکنے ان کی آزادانہ حیثیت کو برقرار کھنے کئی ایک اقدامات کا بھی وعدہ کیا ہے۔