گاڑیوں اور مکانات پر دھاوے، احتیاطی حراست کا اندیشہ، ٹی آر ایس قائدین کو کھلی چھوٹ
دولت و طاقت کا استعمال
حیدرآباد 9 اپریل (سیاست نیوز) اب جبکہ تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات کی مہم کا اختتام ہوچکا ہے اور رائے دہی کو دو دن باقی ہیں، برسر اقتدار ٹی آر ایس نے سرکاری مشنری کے استعمال کے ذریعہ اپوزیشن کے حوصلے پست کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ریاست بھر میں کانگریس قائدین اور اُن کے رشتہ داروں کے مکانات پر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعہ دھاوے کئے جارہے ہیں۔ اِس کے علاوہ کانگریس کے امیدواروں، اُن کے رشتہ داروں اور قریبی افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے شیڈو پارٹی تشکیل دی گئی اور بعض مقامات سے فون ٹیاپنگ کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس نے جس طرح کامیابی حاصل کی اُس میں حقیقی رائے دہی کا فیصد انتہائی کم رہا اور رائے دہندوں سے زیادہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں نے ٹی آر ایس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اسمبلی نتائج کی طرح کے سی آر چاہتے ہیں کہ لوک سبھا کی 16 نشستوں پر پارٹی کو کامیابی حاصل ہو تاکہ قومی سطح پر معلق پارلیمنٹ کی صورت میں اپنی شرائط پر کسی گروپ کی تائید کی جاسکے۔ کے سی آر نے اپنی حلیف جماعت مجلس کے لئے حیدرآباد کی نشست کو چھوڑ دیا اور باقی 16 نشستوں پر توجہ مبذول کی ہے۔ اسمبلی کے بعد کونسل کی 3 نشستوں کے انتخابات میں سرکاری ملازمین، اساتذہ اور بے روزگار نوجوانوں نے ٹی آر ایس کے تائیدی امیدواروں کو شرمناک شکست سے دوچار کردیا اور کانگریس اور کمیونسٹ کے تائیدی امیدوار کامیاب ہوئے۔ کے سی آر کے لئے یہ نتائج نہ صرف غیر متوقع بلکہ چونکا دینے والے ثابت ہوئے۔
کیوں کہ اُنھیں پارٹی کی اِس طرح کی ہزیمت کا اندازہ نہیں تھا۔ کانگریس کے 10 ارکان اسمبلی کو کے سی آر نے ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے اسمبلی میں مسلمہ اپوزیشن کے موقف سے محروم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں عوام کی نظروں میں پسندیدہ ثابت نہیں ہوئے جس کے نتیجہ میں کونسل کی تینوں نشستوں پر ٹی آر ایس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لوک سبھا انتخابات کی مہم کے آغاز پر چیف منسٹر کو یقین تھا کہ تمام 16 نشستوں پر اُنھیں کامیابی ملے گی لیکن جیسے جیسے مہم آگے بڑھتی گئی کانگریس کو تقریباً 7 حلقوں میں عوامی تائید دکھائی دینے لگی۔ 7 حلقے ایسے ہیں جہاں ٹی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انٹلی جنس نے بھی چیف منسٹر کو اِس حقیقت سے آگاہ کردیا کہ بعض حلقوں میں عوامی ناراضگی ٹی آر ایس کے لئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ کئی اضلاع میں چیف منسٹر اور اُن کے فرزند کی انتخابی مہم کے موقع پر عوام کی تعداد انتہائی کم دیکھی گئی۔
4 لوک سبھا حلقوں حیدرآباد، سکندرآباد، ملکاجگیری اور چیوڑلہ کے لئے لال بہادر اسٹیڈیم میں جلسہ عام منعقد کیا گیا تھا لیکن عوام کی عدم موجودگی کے سبب چیف منسٹر نے لمحہ آخر میں پروگرام کو منسوخ کردیا۔ حکومت اور برسر اقتدار پارٹی سے عوام کی بیزارگی اور کانگریس کے حق میں بڑھتی تائید سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر کے سی آر نے آخرکار سرکاری مشنری کا سہارا لینے کی ٹھان لی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تمام اضلاع میں پولیس کو ہدایت دی گئی کہ وہ کانگریس قائدین اور کارکنوں پر کڑی نظر رکھیں۔ جگہ جگہ اُن کی گاڑیوں کی تلاشی لی جائے اور ضرورت پڑنے پر مکانات پر دھاوے کئے جائیں۔ پولیس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سرگرم کارکنوں کو احتیاطی طور پر حراست کے نام پر اپنی تحویل میں لے یا گھر پر نظربند کردے تاکہ وہ پارٹی کی مہم میں حصہ نہ لے سکیں۔ رائے دہی کے دن تک کانگریس امیدواروں اور قائدین پر پولیس کے ذریعہ سخت نگرانی رکھی جائے گی تاکہ وہ ہراسانی سے خوفزدہ ہوکر رائے دہی پر توجہ مبذول نہ کرسکیں۔ کانگریس قائدین نے شکایت کی ہے کہ بعض امیدواروں اور قائدین کے فون ٹیاپ کئے جارہے ہیں تاکہ اُن کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ پولیس نے ٹی آر ایس قائدین اور اُن کے حامیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور شہر کے اطراف کے حلقہ جات چیوڑلہ، ملکاجگیری اور سکندرآباد میں ٹی آر ایس کی جانب سے بڑے پیمانے پر رقومات کی تقسیم کا آغاز ہوچکا ہے۔ اِس کے علاوہ غریب بستیوں میں شراب تقسیم کی جارہی ہے۔ سرکاری مشنری اور دولت کے استعمال کے ذریعہ رائے دہندوں پر اثرانداز ہونے کی کوششیں اگرچہ الیکشن کمیشن کے علم میں ہے لیکن کانگریس کی شکایت ہے کہ الیکشن کمیشن اُن کی شکایات پر کارروائی سے گریز کررہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ برسر اقتدار پارٹی کے اِن ہتھکنڈوں کا شکار ہوئے بغیر اپنی پسند کے امیدواروں کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں۔ رائے دہندوں کو کسی خوف اور لالچ کے بغیر اپنے دستوری اور جمہوری حق کا استعمال کرنا ہوگا۔ کانگریس امیدواروں کو اندیشہ ہے کہ 11 اپریل تک پولیس کی جانب سے ہراسانی کے واقعات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔