کانگریس کے دلت صدر کھرگے کو چیلنجس کا سامنا

   

رام پنیانی
حال ہی میں صدر انڈین نیشنل کانگریس کے عہدہ کیلئے ہوئے انتخابات میں ملکارجن کھرگے منتخب ہوئے۔ وہ ایک بزرگ کانگریس لیڈر ہیں اور سیاسی زندگی کا ایک وسیع تر تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ مسٹر کھرگے اس باوقار عہدہ پر فائز ہونے والے تیسرے دلت ہیں۔ پارٹی میں صدر کا انتخاب تقریباً 24 سال بعد ہوا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہندوستان میں سوائے کمیونسٹ جماعتوں کے دوسری سیاسی جماعتوں کے عہدوں پر نامزد سیاست داں فائز ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق موروثی سیاست سے ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اگرچہ حکمراں بی جے پی، کانگریس کی موروثی سیاست کو ہمیشہ سے ہی تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ خود بی جے پی میں بہت زیادہ موروثی سیاست پائی جاتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کا کنٹرول آر ایس ایس کے مقرر کردہ آرگنائزنگ سیکریٹریز کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور عام طور پر حکمراں بی جے پی میں آر ایس ایس کے حکم پر کام چلتا ہے اور اس کے اشاروں پر ہی بی جے پی قائدین اپنے قدم آگے بڑھاتے ہیں یا پیچھے ہٹاتے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس کو اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ پارٹی کے اُمور میں گاندھی خاندان کی اجارہ داری ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2004ء میں سونیا گاندھی کانگریس کی سربراہ تھیں اور عہدہ وزارت عظمیٰ پر وہ فائز ہونے کا حق بھی رکھتی تھیں لیکن اس باوقار عہدہ پر فائز ہونے سے انہیں روکنے کی ممکنہ کوششیں کی گئیں اور اس قدر شدت سے مخالفت کی گئی کہ انہوں نے وزیراعظم بننے کی تمام صلاحیتیں رکھنے کے باوجود خود کو اس عہدہ سے دُور رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔ کئی سیاسی گوشوں سے ان کی مخالفت میں زبردست شوروغل سنا گیا اور یہ کہا گیا کہ سونیا گاندھی چونکہ پیدائشی طور پر ہندوستانی نہیں ہیں، بیرونی نژاد ہیں، اس لئے انہیں وزیراعظم کے عہدہ پر فائز نہیں کیا جاسکتا اور سونیا گاندھی کو بیرونی نژاد کہہ کر وزیراعظم بننے سے روکنے والے لوگ آج اس بات پر بڑے خوش ہیں کہ ہندوستانی نژاد رشی سونک برطانیہ کے وزیراعظم بنے ہیں۔ جہاں تک ملک ارجن کھرگے کا سوال ہے، وہ ایسے وقت ملک کی قدیم ترین سیاسی جماعت کی قیادت سنبھالے ہیں جبکہ اسے کئی ایک چیلنجس درپیش ہیں اور سیاسی منظر پر فی الوقت تخریبی سیاست کرنے والے عناصر چھائے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ریاستی مشنری کے مختلف اجزاء یا عوامل پر بھی ان کی اجارہ داری ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر اب یونیورسٹیز کے وائس چانسلروں اور ارکان فیکلٹی کی بھرتیاں یا تقررات صرف اور صرف ان کے نظریات کی بنیاد پر کئے گئے ہیں یا کئے جاتے ہیں حالانکہ تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور اساتذہ کے تقررات ان کی صلاحیتوں، علمی قابلیت و اہلیت کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں، لیکن اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ آیا وہ دائیں بازو آئیڈیالوجی کے حامل ہیں یا نہیں۔
آج ملک ایک ایسے دور سے گذر رہا ہے جہاں عوام کی اکثریت انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عالمی سطح پر بھوک کے عشاریہ میں ہندوستان کا درجہ گرتا ہی جارہا ہے۔ صرف بھوک کے عشاریہ میں ہی نہیں بلکہ آزادی صحافت، جمہوری آزادی اور مذہبی آزادی کے معاملے میں بھی ہمارے ملک کا درجہ روبہ زوال ہے۔ ملک کے اوسط لوگوں کی معاشی حالت انتہائی ابتر ہے، اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، بیروزگاری تو اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے، کسانوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ دوسروں کیلئے اناج اُگانے والا کسان خود بھوکا ہے، امن و ضبط کی صورتحال کس قدر ابتر ہوچکی ہے، سب جانتے ہیں، کئی ایک بین الاقوامی ایجنسیوں نے اقلیتوں کے خلاف بڑھتے مظالم کے بارے میں انتباہ دیا ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں پر بہت زیادہ ظلم کیا جارہا ہے۔ ان کے انسانی حقوق پامال کئے جارہے ہیں، قتل عام و نسل کشی سے متعلق مطالعات (اسٹیڈیز) کے ماہر گریگوری اسٹانٹسن نے تو اس بارے میں خبردار بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں ملک ارجن کھرگے کا ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کا صدر بننا کسی چیلنج سے کم نہیں، انہیں نہ صرف کئی ایک چیلنجس کا مقابلہ کرنا ہے، بلکہ ان اقدار کو مستحکم بھی بنانا ہے جس کی بنیاد پر کانگریس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہاں ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں۔ 1885ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا کیسے قیام عمل میں آیا۔ انڈین نیشنل کانگریس سے قبل ممبئی اسوسی ایشن، مدراس مہاجن سبھا ، پونہ سرواجانک سبھا قائم کئے گئے اور پھر 1883ء میں کولکتہ میں ایک اہم اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اپنے سیاسی مطالبات کی آواز انگریز سامراج تک پہنچانے کیلئے ایک سیاسی پلیٹ فارم قائم کیا جائے۔ وہ مطالبات صنعتیانے، اراضی اصلاحات، ہندوستان میں آئی سی ایس امتحانات کے مراکز اور نظم و نسق میں ہندوستانیوں کی شراکت کو بڑھانے سے متعلق تھے۔ اس معاملے میں لارڈ ہیوم کا ایک کردار رہا، انہوں نے تمام انجمنوں کو متحد کیا۔ اس طرح انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ مذہب، ذات پات اور علاقہ سے بالاتر تھی جبکہ خواتین کو بھی اس عمل کا حصہ بتایا گیا۔ صدر انڈین نیشنل کانگریس کا عہدہ بہت اہم تھا اور اس عہدہ پر مسلم (مولانا ابوالکلام آزاد)، عیسائی (ڈبلیو سی بنرجی)، پارسی دادا بھائی نوروجی) بھی فائز رہے اور پارٹی کو مشمولیاتی شکل دی۔ اس کے بانی قائدین میں لوک مانیہ تلک، ایم جی رنا ڈے، گوپال کرشنا گھوکلے شامل رہے، جنہوں نے جمہوری اقدار کے ذریعہ اسے انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی آواز بنایا اور انگریز حکمرانوں کی زیادتیوں پر مبنی پالیسیوں کے خلاف کانگریس کو ایک موثر پلیٹ فارم میں تبدیل کیا، تاہم مہاتما گاندھی کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی ایک زبردست عوامی تحریک شروع کی گئی اور اس تحریک کے ذریعہ سب سے پہلے عوام کو متحد کیا گیا اور کانگریس کی ان تحریکوں کی سب سے بڑی طاقت عوام کا اتحاد تھا ، جس نے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔ گاندھی کا سحر تھا کہ انہوں نے کانگریس کو بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات و علاقہ تمام ہندوستانیوں کیلئے فائدہ بخش بنایا اور ہر شخص کے مفاد کو اس میں مدنظر رکھا گیا چنانچہ ہر ہندوستانی کے مفادات کا تحفظ کانگریس کی پالیسیوں کا اہم حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے چند عالمی دباؤ کے نتیجہ میں بعض اقتصادی پالیسیاں ملک میں متعارف کرنی پڑی جس سے غریبوں کے مفادات کو نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود یو پی اے Iاور II میں عوام کے مفادات پر مبنی حق معلومات، صحت، تعلیم، وغیرہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی اور ان سے متعلق کئی عوام دوست پالیسیوں کو متعارف کروایا گیا تاکہ پالیسی سازوں، سماجی تحریکوں اور ترقی پسند قوتوں کو سماجی بہبود سے متعلق پالیسیوں میں جگہ مل سکے، لیکن شناختی سیاست نے تمام منصوبوں کو بگاڑ دیا اور 1980ء اور 1986ء کے مخالف تحفظات دنگوں نے رہی سہی کسر پوری کردی اور اپوزیشن کو تو جیسے بہت بڑا موقع مل گیا، خاص طور پر منڈل کمیشن پر عمل آوری کے بعد اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی اور پھر بابری مسجد شہید کردی گئی۔ ان تمام واقعات کے بعد ملک کے حالات یکسر بدل گئے اور ان حالات نے مذہبی خطوط پر تقسیم کی تخم ریزی کی۔ فرقہ پرست طاقتوں نے نہ صرف خود کو مستحکم کیا بلکہ گائے کا گوشت، آبادی کا توازن، گھر واپسی، مذہبی آزادی پر حملہ جیسے غیرضروری مسائل نے ملک کے اتحاد و سالمیت کو زبردست نقصان پہنچایا۔ حال ہی میں کانگریس پارٹی کا اودے پور کنونشن (2022) ایسا لگتا ہے کہ ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور خاص طور پر ملک میں اتحاد و اخوت کی بحالی کے امکانات اس سے ایک طرح سے بحال ہوئے۔
بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر کانگریس کی حیثیت سے ملکارجن کھرگے کیا کردار ادا کرتے ہیں، ویسے بھی راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ سے اُنہیں پارٹی کو مستحکم بنانے میں کافی مدد ملے گی۔