کانگریس کے صدر کا انتخاب پارٹی اور ملک کیلئے اہم

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ

کانگریس ہندوستان کی قدیم ترین سیاسی جماعت ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلائی اور فی الوقت کانگریس داخلی انتخابات کے موڈ میں ہے اور سب سے اہم مسئلہ اس کے صدر کے انتخاب کا ہے۔ باالفاظ دیگر کانگریس کے داخلی انتخابات میں ایک غیرمعمولی بلکہ تقریباً رکاوٹ و خلل والی کیفیت اور دلچسپی پائی جاتی ہے۔ دو سال قبل جب جے پی نڈا بی جے پی کے صدر منتخب ہوئے تب ہندوستان میں کسی نے بھی بشمول خود بی جے پی کے بڑے چھوٹے قائدین و کارکنوں نے اور یقیناً کانگریس پارٹی کے کسی رکن نے اس کی پرواہ نہ کی۔ اس انتخاب کے بارے میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا اور کسی نے فہرست رائے دہندگان کے بارے میں پوچھنے کی زحمت گوارا کی۔ کوئی یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس انتخاب کا ریٹرننگ آفیسر کون تھا۔ اگرچہ بی جے پی حکمراں جماعت ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ رکنیت سازی کے معاملے میں وہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے، اس کے باوجود صدر بی جے پی کی حیثیت سے جے پی نڈا کے انتخاب کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ الیکشن کی کسی نے پرواہ تک نہیں کی، لیکن جب صدر کانگریس کے انتخاب کا معاملہ آیا تو بی جے پی اور میڈیا نے غیرمعمولی دلچسپی کا اظہار کیا جو دراصل دو حقائق کا ثبوت ہیں۔ ایک یہ کہ کانگریس سے پاک بھارت ایک سراب اور ایک فسانہ ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ یعنی بھارت کبھی کانگریس سے مکت (پاک) نہیں ہوگا۔
دوسرا یہ کہ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا نے بی جے پی کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ یاترا بی جے پی میں بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ وہ عدم مطمئن ہے جبکہ کانگریس میں اطمینان کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اب میڈیا بھی اس بات کو قبول کرنے کیلئے مجبور ہوگیا ہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا مثبت عوامی ردعمل حاصل ہورہا ہے، ورنہ میڈیا کانگریس کی ہر مہم کو مسترد کردیتا ہے، جیسے اس کی کوئی اہمیت نہ ہو۔
پارٹی اور گاندھی خاندان
کانگریس اکٹوبر میں اپنے اگلے صدر کا انتخاب کرے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ صدر کون ہوگا؟ اس بارے میں راقم الحروف کچھ نہیں کہہ سکتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کے قائدین و کارکن سب کے سب یہی چاہتے ہیں کہ راہول گاندھی ہی پارٹی کے عہدہ صدارت پر فائز ہوں۔ واضح رہے کہ جولائی 2019ء میں انہوں نے پارٹی صدر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اگرچہ راہول گاندھی کو صدر پارٹی بنانے کی خواہش پارٹی قائدین اور کارکنوں کا حق ہے تاہم مسٹر گاندھی نے یہ واضح کردیا کہ وہ دوبارہ کانگریس صدر بننے کے خواہاں نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ پارٹی قائدین مسٹر گاندھی کو اپنا ذہن تبدیل کرنے اپنا فیصلہ بدلنے کی آخری کوشش کریں۔ اگر وہ تب بھی راضی نہ ہوں تو پھر پارٹی قائدین و کارکنوں کو مسٹر راہول گاندھی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور الیکٹورل کالج کسی اور لیڈر کو پارٹی کا صدر بناتے ہوئے عبوری صدارت پر پردہ ڈال سکتا ہے۔ میرے خیال میں کانگریس کے عہدہ صدارت پر ایک غیرگاندھی کے انتخاب کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ پارٹی نے گاندھی خاندان کو چھوڑ دیا ہے یا پھر گاندھی خاندان نے پارٹی کو چھوڑا ہو۔
جہاں تک کانگریس کی تاریخ کا سوال ہے، کانگریس پارٹی کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ میں کئی سبق پنہاں ہیں۔ ہندوستانی سیاسی منظر نامہ میں مہاتما گاندھی کی آمد کے بعد وہ کانگریس پارٹی کے ایک مقبول عام لیڈر رہے۔ اگرچہ کانگریس میں بلند قامت لیڈروں کی کوئی کمی نہیں تھی، اس کے باوجود ان تمام میں گاندھی جی کا سیاسی قد بہت بلند تھا۔ 1921ء تا 1948ء کے دوران 14 مختلف شخصیات کانگریس کے عہدہ صدارت پر فائز ہوئیں۔ ان قائدین میں سی آر داس، سروجنی نائیڈو، ایس سرینواسا آئنگر، ایم اے انصاری، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، راجندر پرساد، سبھاش چندر بوس، ابوالکلام آزاد اور اچاریہ کرپلانی شامل تھے۔ اسی طرح کے حالات 1948ء اور 1964ء کے درمیان رہے۔ اس مدت میں پنڈت جواہر لال نہرو کانگریس کے مقبول ترین رہنما رہے اور اس دور میں سات شخصیتوں نے صدر کانگریس کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے نمایاں خدمات انجام دیں۔ 1965ء اور 1984ء کا دور بھی مختلف نہیں رہا۔ اندرا گاندھی کانگریس کی مقبول ترین لیڈر رہیں اور اس مدت کے دوران آٹھ شخصیتوں نے پارٹی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ایک بڑے ملک کی بڑی پارٹی میں جو خاص بات رہی، وہ عوام کو ایک قابل اور بااعتماد قیادت فراہم کرنی تھی۔ ایسی قیادت جو عوام کے ساتھ اپنے ویژن کو بانٹنے اور انہیں پارٹی کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کی طرف راغب کرے اور صدر کا سب سے اہم کام یہ ہوتا کہ تنظیم کو مضبوط کرے۔ اسے اچھی حالت میں رکھے اور انتخاب لڑنے کے قابل بنائے۔ یہ دونوں کام اگر کوئی ایک فرد انجام دیتا تو وہ بہت اچھا ہوتا اور اسے پارٹی کی خوش قسمتی تصور کی جاتی اور اگر ان ذمہ داریوں کو دو افراد یا شخصیتوں میں تقسیم کیا جاتا تو اسے عملی اقدامات اور دانشمندی کا ثبوت سمجھا جاتا۔ جیسا کہ میں نے کہا مہاتما گاندھی نے یہ کام اپنے انوکھی سیاسی نظریہ یعنی عدم تشدد، عدم تعاون، سیول نافرمانی اور پھر بالآخر ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے ذریعہ کیا اور گاندھی جی کے اس نظریہ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی جبکہ پنڈت جواہر لال نہرو نے غیرجانبدارانہ تحریک، سکیولرازم اور سوشل ازم کا تصور دیا۔ اگر دیکھا جائے تو کانگریس پارٹی کی مشنری کو پھر سے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور یہ قدم فوری اٹھایا جانا چاہئے اور اس کیلئے بلند حوصلے و ارادے درکار ہیں۔ صدر پارٹی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پارٹی کی ہر اکائی پر گہری نظر رکھیں یعنی یوتھ کی سطح سے لے کر بلاک کی سطح اور ضلع سے لے کر ریاست کی سطح تک وہ قائدین اور پارٹی کارکنوں پر نظر رکھے۔ صدر ایسا ہونا چاہئے جس میں نمایاں خدمات انجام دینے والے قائدین کو انعام اور توقعات پر اترنے میں ناکام قائدین کو سزا دینے کا حوصلہ ہو۔ پارٹی صدر کیلئے دن میں 24 گھنٹے ہفتہ میں 7 دن اور سال میں 364 دن کام کرنا ضروری ہے۔ (اس میں صدر کے یوم پیدائش کو استثنیٰ دیا جاسکتا ہے) بہرحال ہمہ جماعتی جمہوریت اور ایک فعال پارلیمنٹ کی کلید کانگریس ہے۔ کانگریس کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ کانگریس کا صدر کون ہوگا، کانگریس کا لیڈر کون ہوگا، وہ چند دنوں میں معلوم ہوجائے گا۔ یہ کانگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ ملک کیلئے ایک اہم ہفتہ ہے۔