اودیش رانی
ہندوستان میں ایک فرقہ ایسا ہے جو صدیوں سے ہندوستان میں اقلیت کے طرح سے ہے مگر کبھی بھی اقلیت میں شمار نہیں ہوا ویسے ہی جیسے پارسی ہیں۔ ان کے اپنے رسم و رسواج سب اپنی طرح سے انفرادی ہے ان کو کایستھ کہتے ہیں۔
ان کے بارے میں اساطیری ادب کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جب برہما سے یم راج کہا کہ ان کو ایک ایسا شخص چاہئے جو ان کے کام کا حساب کتاب رکھے۔ برہما نے اپنے جسم سے ایک حصہ نکال کر یا اپنی چھایا سے ایک شخص بنایا جسے چترگپت کہا یعنی چھپی ہوئی تصویر۔ یہ بہت ہوشیار تھے ان کو قلم اور قلمدان دیا گیا۔ کایستھوں نے پوجا ہمیشہ اسی قلم دوات کی۔
لیکن ایک انگریز نے جس کا نام رس لے Risley تھا ہندوستان کے قبائل پر تحقیق کی اور ایک کتاب Castes & Tribes لکھی جس کی پانچ جلدیں ہیں۔ جلد اول میں کایستھوں کا ذکر ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق چانکیہ نے چندرگپت موریا کو مگدھ کا راجا بنایا تھا جس کے چار لڑکے تھے ایک لڑکے کا نام چترگپتا تھا جس نے چانکیہ کی بیٹی سے شادی کرلی اور چانکیہ ناراض ہوگیا کیونکہ چترگپت برہمن نہیں تھا اور چندر گپت کی ماں نے شادی نہیں کی تھی۔ اس کی ماں اس قبیلہ سے تعلق رکھتی جو موروں کی پرستش کرتے تھے اور مور کا یہ سر رکھتے تھے۔ چانکیہ ناراضگی سے چترگپت کو کایہ است کہنے لگا یعنی ایسا جسم جو ڈوب گیا۔ وہ کہتا ہے کایستھ گوشت ماں کے پیٹ میں اس لے نہیں کھاتے کیوں کہ اس وقت ان کے دانت نہیں ہوتے۔ چانکیہ کہتا ہے کہ وہ صرف کایہ است سے ڈرتا ہے۔ یہی کایستھ پچھلے کئی صدیوں سے ہندوستان میں پھیل گئے۔
چترگپت چانکیہ کی بیٹی نندنی سے شادی کی اور بعد جب سیلوکس نے مگمدھ پر حملہ کیا تو اس بیٹی ہیسلنا کو بھی ساتھ لایا۔ چترگپت نے ہیسلنا کو بھی بیوی بنا لیا۔ اس طرح اس کی دو بیویوں سے بارہ لڑکے ہوئے جو بارہ بھائی کہلائے جو نندنی اور سوبھاوتی کے لڑکے کہلائے۔
نندنی کے چار لڑکے سدانند، سارنگ دھر، دامودھر اور شیام سندر نام رکھا گیا ان کی تربیت برہمن طریقے سے کی گئی اور سدانند کو کل شرشٹ، سارنگ دھر امیشٹ دامودر کرن اور شیام سندر سورج دھج کا لقب دیا۔ ساوبھاوتی کے لڑکوں کا نام گنگادھر، ماتھر (2) بھانو پرکاش بھٹ نگر (3) رام دیال سکسینہ (4) دھرم دھج سریواستو (5) سوم دت نگم (6) دھرم داتا گوڑ اور (7) دین دیال اشٹھانہ (8) راگھوراو والمیک کہلائے۔
ان تمام لڑکوں پر ملک کے مختلف نظم و نسق اور کارکردگی کی ذمہ داریاں عائد کی گئیں۔
ان کو جو سرنیم دیئے وہ ان کے ذمہ دیئے کام کے لحاظ تھے پھر دھیرے دھیرے ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گئے۔ بنگال کی طرف پھیلنے والے بوس گھوش، پالیت، سین گپتا، مترا اور دتا کہلائے۔ مہاراشٹرا میں بسنے والے اپنے آپ کو سینا کایستھ وہ اپنے آپ کو چندرسین کی اولاد بتاتے ہیں۔ یونہ ممبئی کے علاوہ حیدرآباد میں ایک چھوٹی بستی میں رہتے ہیں اور آندھرا میں کما اور نائیڈو کہلائے (کھمم پاتی ست نارائن آندھرا تاریخ) یوپی میں دو مقامات پر مسلمان کایستھ ہے امروہیہ میں محلہ کایستھان ہے اور الہ آباد میں کٹہرہ کایستھان ہے۔
ان کے ہوشیاری کے بہت سے قصے ہیں مگر ایک اساطیری روایت ہے کہ ایک بنیا جو نابینا تھا شیوکی پوجاکرتا ہے اس کی اس پوجا سے خوش ہوکر پرگٹ ہوئے اور اس کی خواہش پوچھی بنئے نے دوسرے دن کی مہلت مانگی کہ وہ سوچ کر خواہش کو پیش کرے گا۔ بنئے نے اپنے پڑوسی کایستھ سے مشورہ کیا اور دوسرے دن شیو پرگٹ ہوے بنئے نے اپنے دوست کے مطابق کہا۔ بھگوان میں چاہتا ہوں کہ اپنے پوتے کو سونے کے کٹورے میں دودھ پیتا دیکھوں۔ اب سوچئے ایک خواہش اس طرح کہی گئی وہ چار خواہشات پوری کرسکے۔ شیو نے خواہش پوری کرنے کا آشیرواد دیا مگر کہا کہ تمہارے صلاح کار کو کبھی دولت نہیں ملے گی۔ وہ صرف اپنی عقل کی کمائی ہی کھا سکے گا اور ہمیشہ تمہارا مقروض رہے گا ایک اور روایت ہے کہ سکندر لودھی نے برہمنوں کو فارسی زبان سیکھنے کہا اور براہمنوں نے اس غیرملکی زبان کو ملیچھ کہہ کر مسترد کردیا۔ مگر کایستھوں نے قبول کرلیا اور ہم کو فیروز شاہ سے دارا شکوہ کے زمانے تک سنسکرت سے فارسی میں رامائن مہابھارت کے ترجمے ملتے ہیں۔ راجاٹودرمل نے فارسی کو سرکاری زبان بنوای۔ اکبر کے درباری نورتن یں راجا ٹوڈرمل اور بیربل مہیش داس کایستھ تھے۔ رگھوناتھ داس فینانس منسٹر تھے۔
اردو ہندی کے ادیبوں کی طویل فہرست ملتی ہے۔ سیاسی میدان میں پہلا نام لالہ ہردیال کا ہے جو انگلستان بیرسٹر کی تعلیم کیلئے گئے تھے اور غدر پارٹی کے علاوہ ہندوستان کی آزادی کیلئے فنڈس جمع کرتے تھے اور تپ دق سے کینیڈا میں موت ہوئی۔
ڈرامہ نگاری میں مشہور اگریکلچرسٹ ICAR Agriculturist کے بانی شانتی سروپ بھٹناگر ہیں جنہوں نے لاہور میں ڈراما کراماتی لکھا
رماشنکر نے ہندوستان کے پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف میںانقلاب لایا۔ شیام کشن نگم نے آفسیٹ پرنٹننگ کو بڑھاوا دیا۔ پہلی خاتون کمرشیل پائلٹ پریما ماتھر تھیں۔
کایستھ فرقہ سیکولر رہا اور سناتن دھرم سے جڑا رہا جس کا نتیجہ مدھوبینی سیٹنگ، کشیدہ کاری، زردوزی کے خوبصورت نمونے کایستھ خواتین کی کارگزاری رہے۔ ہاں کایستھ عورت کو پڑھانا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ وہ نسل کی تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جب اردو ہندی ادب کا نام آتا ہے تو ایک لمبی فہرست ملتی ہے۔ تین صدیوں انہوں نے اس زبان کو اپنا لیا ہے۔ راجہ نول راے وفا، کالی پرشاد اخلاص، میدولال الفت راے سرب سکھول، جواہر سنگھ جوہر، شیوراج مہرا، دوارکا پرساد افق، شنکر دیال فرصت، شیوبرت لال ورما، جواہر لال شاد برق، درگا پرساد سرور، جہاں آبادی، راجاگنگا پرساد بلد، بشیشر پرشاد، منور، لکھنوی، کنھیالال ڈل، بریلوی رائے بہادر رام بابو سکسینہ، تاریخ اردو ادب کے مصنف) دیانارائن نگم (ناقد اور ایڈیٹر) منشی پریم چند۔ رگھوپتی دخراق گورکھپوری، شانتی سروپ بھٹناگر، ماسٹررام چندر، ہندی ادیبوں کی فہرست گرجاشنکر ماتھر، مہادیو ورما، ہرونش رائے بچن، ورنداون لال ورما، بھگوتی چرن ورما، سرویشوردیا سکیتہ، بی پی سرواستو، سری کانت، ڈاکٹر دھرم ویربھارتی، کملیشور۔
یہ تو ادیبوں کی فہرست تھی مگر ہندوستان کی سوشل اور ترقی میں کایستھوں کا بہت بڑا حصہ لیا ہے۔