سدھارتھ وردھا راجن
چیف منسٹر دہلی و عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال کے بارے میں بی جے پی قائدین کا کہنا ہے کہ وہ ہندو مخالف ہیں جبکہ اروند کجریوال اپنے اقدامات اور بالخصوص حالیہ بیانات کے ذریعہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ ہندو مخالف نہیں بلکہ ہندوتوا کے معاملے میں بی جے پی اور اس کے لیڈروں سے بہت آگے ہیں۔ حال ہی میں کجریوال نے ایک عجیب و غریب بیان جاری کرتے ہوئے نہ صرف خود کو ہندوتوا کا کٹر حامی قرار دیا بلکہ بی جے پی قائدین کو ایک طرح سے شرمندہ و شرمسار کردیا۔ انہوں نے برسرعام وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک کی ترقی کیلئے ہندو دیوی لکشمی اور دیوتا گنیش کی تصاویر کرنسی نوٹوں پر چھاپا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے انڈونیشیا کی مثال پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ وہاں ہندوؤں کی تقریباً 2% آبادی ہے لیکن انڈونیشیائی کرنسی پر گنیش کی تصویر ہوتی ہے۔ کجریوال نے جس طرح کرنسی نوٹوں پر ہندو دیوی دیوتا کی تصاویر چھاپنے کا مشورہ دیا اور تجویز پیش کی، ایسی ہی ایک غیردانشمندانہ بلکہ احمقانہ تجویز کا مشاہدہ ہم ہندوستانیوں نے سال 2016ء میں اُس وقت کیا جب وزیراعظم نریندر مودی نے رات 8 بجے ٹی وی پر قوم سے خطاب کیااور اس میں انہوں نے 500 کی کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی عائد کرنے کے اقدام سے قوم کو واقف کروایا۔ اس ضمن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بدعنوانی اور سیاہ دھن (بلیک منی) پر قابو پانے کیلئے 80% نوٹوں کے چلن پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں غیرقانونی قرار دیا گیا۔ اگر ہم اپنے ملک کے سیاسی اقدار کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی سیاست کس قدر پستی کی جانب رواں دواں ہے اور یہی پستی ہمارے ملک کی سیاست کا شیوہ بن گئی ہے۔ اب تو عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال نے عجیب و غریب بیان اور دعوے کے ساتھ اسے اور گرادیا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر ملک کی کرنسی نوٹوں پر لکشمی اور گنیش کی تصاویر ہوں گی تو ملک ترقی کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اروند کجریوال نے یہ دعویٰ اور تجویز صرف اور صرف بی جے پی کو پریشان اور شرمسار کرنے کیلئے کیا ہے کیونکہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ صرف اسے ہی ہندوتوا کی پہچان دکھانے کا حق ہے۔ کچھ عرصہ قبل بی جے پی قائدین نے اروند کجریوال کو ہندو مخالف قرار دیا تھا لیکن اس الزام کی تائید و حمایت میں پیش کئے گئے شواہد بی جے پی کے حق میں نہیں ہیں۔ بی جے پی قائدین نے اروند کجریوال کو ہندو مخالف قرار دیتے ہوئے اپنے بیان کی تائید میں یہ دلیل پیش کی تھی کہ کجریوال نے دیوالی کے دوران آتش بازی پر پابند عائد کرتے ہوئے فضائی آلودگی پر کنٹرول کا مطالبہ کیا تھا۔ بی جے پی قائدین کا یہ بھی الزام تھا کہ کجریوال کے ایک وزیر نے بدھ مت اختیار کرکے ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کی اور ہندوازم ترک کرنے سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی جانب سے جو وعدے کئے گئے تھے جو عہد کیا گیا تھا، اس کا اعادہ کیا۔ بی جے پی کو ڈاکٹر امبیڈکر کے وعدے اور عہد پسند نہیں حالانکہ یہ وہی امبیڈکر ہیں جن کا شاگرد ہونے جن سے متاثر ہونے کا ہمارے وزیراعظم نریندر مودی دعویٰ کرتے ہیں۔ (سابق صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے 16 ستمبر کو ایک کتاب کی رسم اجرائی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی کو امبیڈکر کا سچا فالوور قرار دیا تھا)۔ہاں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے عام آدمی پارٹی پر اوریجنل کی خراب کاربن کاپی ہونے کا بھی الزام لگایا ہے۔ دریں اثناء ہندوستان کے ہندوؤں جن میں سے اکثر نے کروڑہا دیوی دیوتاؤں کے باوجود اپنی معاشی حالت کو بگڑتے دیکھا ہے کو بس یہ سوچ کر معاف کیا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کی بھلائی کیلئے اب کس پر بھروسہ کریں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں ہندوستانیوں نے اسی طرح کی غیردانشمندانہ تجویز کا مشاہدہ 6 سال قبل (2016ء) میں کیا تھا۔ جب مودی جی نے سیاہ دھن (بلیک منی) کو ختم کرنے اور بدعنوانی پر قابو پاکر ہندوستانمی معیشت کو ایک نئی رفتار دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے 80% کرنسی نوٹوں کو واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ کجریوال کی طرح وہ بھی امید کررہے تھے کہ لوگوں کا ان پر اندھا بھروسہ انہیں دھوکہ دینے میں مدد کرے گا لیکن سارے ہندوستان ساری دنیا نے دیکھا کہ نوٹ بندی کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ معاشی ترقی کے امکانات ختم ہوگئے۔ کرپشن بھی ختم نہیں ہوا۔ اس کے برعکس عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کیلئے ایک مثال پیش کرنی ہوتی ہے۔ وہ مثال میکرو اکنامکس کے آغاز میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ پیسہ دراصل قدر قیمت، رقمی لین دین کا ذریعہ اور اکاؤنٹ کی اکائی ہے۔ اب کجریوال نے اس میں ایک چوتھی چیز جوڑی ہے جس کا دنیا بھر کی سنٹرل بینکس جائزہ لینے کی خواہاں ہوسکتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کجریوال نے بی جے پی قائدین کو شرمسار کرنے کیلئے جو تھیوری آف منی پیش کی ہے۔ وہ ان کاروباروں کو کیسے سنبھالے گی جہاں معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔ کیا دیوی دیوتاؤں کے آشیرواد سے کساد بازاری کو ختم کیا جائے گا۔ روپیہ کو اس کی عام قدر سے اوپر اُٹھایا جائے گا؟ جس سے آر بی آئی اور ہمارے دوسرے معاشی محکمہ و ادارہ جات آرام سے بیٹھے رہیں اور لکشمی ۔ گنیش اپنا کام کرتے رہیں گے اور معیشت بحال ہوگی۔ کجریوال نے اپنی اس عجیب و غریب تجویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک دلیل یہ پیش کی کہ 2000 روپئے قدر کے انڈونیشیائی کرنسی نوٹ میں گنیش کی تصویر ہے۔ (بعد میں انہوں نے یہ بیان واپس لے لیا) ان کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا میں ہندو آبادی 2% سے بھی کم ہے۔ وہ ملک گنیش کا آشیرواد حاصل کرسکتا ہے تو پھر ایسا ہندوستان میں کیوں نہیں ہوسکتا۔ کجریوال کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آر ایس ایس میں ان کے دوست موجود ہیں کیونکہ خود مجھے بی جے پی کے ایک لیڈر نے بتایا تھا کہ گنیش کی تصویر انڈونیشیائی کرنسی پر موجود ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اسلام کو اپنایا لیکن اپنی ہندو تہذیب و ثقافت کو فراموش نہیں کی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی بات کو یہ کہتے ہوئے آگے بڑھایا کہ یہ سب ہندوستانی مسلمانوں کے برعکس ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کجریوال کی ان صاحب سے ملاقات ہوئی ہوگی۔ آپ کی اطلاع کیلئے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ سال 2008ء کے بعد سے انڈونیشیا کی کسی بھی کرنسی نوٹ پر گنیش کی کوئی تصویر نہیں اور اس کے باوجود انڈونیشیاکے لوگ ہندوستانی عوام سے دوگنے دولت مند ہیں۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ شاید گنیش کا آشیرواد اس کے جانے کے بعد بھی مالیاتی شعبہ میں کام کرتا ہے۔ بی جے پی کجریوال کے اس ماسٹر اِسٹروک سے بوکھلا گئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کجریوال نے یہ بیان دہلی کے مجوزہ بلدی انتخابات اور گجرات اسمبلی انتخابات کے پیش نظر دیا تھا اور وہ بی جے پی کی نقل کررہے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ بی جے پی یہ تسلیم کرنے لگی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران ہندو مذہب کو ایک سیاسی چال کے طور پر استعمال کرتی ہے جس سے اُسے بہت فائدہ ہوتا ہے۔