سینئر پارٹی لیڈر نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بھی کجریوال کے دہلی ماڈل کے بارے میں تفصیلات بتائیں
نئی دہلی: عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سینئر لیڈر اور کالکاجی آتشی سے ایم ایل اے نے جمعہ کو کہا کہ پچھلے سات سالوں میں وزیر اعلی اروندکجریوال کے ‘دہلی ماڈل آف گورننس’ نے قومی دارالحکومت کا چہرہ بدل دیا ہے ۔ آتشی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سمٹ میں دنیا بھر کے ممالک کو بتایا کہ کس طرح کجریوال کے ‘‘دہلی ماڈل آف گورننس’’ نے گزشتہ سات سال میں قومی دارالحکومت کا چہرہ بدل کر رکھ دیا ہے ۔ کجریوال حکومت تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود دہلی میں اپنے شہریوں کو بہترین عوامی خدمات فراہم کر رہی ہے اور دہلی کے بجٹ کو خسارے میں نہیں جانے دیا۔ انہوں نے کہا، “دہلی میں کیا گیا کام ایک ایماندار حکومت کی سیاسی خواہش کا نتیجہ ہے اور بہتر نفاذ کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے کے لیے اچھی طرح سے ڈیزائن کی گئی پالیسیاں ہیں۔ اروند کجریوال کا ‘دہلی ماڈل آف گورننس’ آج دنیا بھر کے ممالک کو درپیش بہت سے چیلنجوں کا حل پیش کرتا ہے ۔آپ لیڈر نے کہا کہ کجریوال حکومت کا ‘دہلی ماڈل آف گورننس’ اپنی موثر عوام پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے دہلی کے لوگوں کو بہترین سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کا چرچا ہے ۔کالکاجی کے ایم ایل اے نے کہا، “آج ہمارے شہروں کا حجم بڑھ رہا ہے کیونکہ لوگ روزگار کے مواقع کی تلاش میں شہروں میں آ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ کیسے یقینی بنائیں گے کہ ہمارے شہروں میں ہجرت کرنے والوں کو پانی، بجلی، سڑک جیسی بنیادی سہولیات میسر ہوں؟ ہم ان کے لیے اعلیٰ معیار کی تعلیم اور صحت کی خدمات کو کیسے یقینی بنائیں گے ؟ کیونکہ جو لوگ شہروں کو منتقل ہورہے ہیں ان میں اتنی مالی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لیے پرائیویٹ ا سکولوں اور اسپتالوں میں جا سکیں۔ ہم اپنے شہروں کے رہائشیوں کو فراہم کی جانے والی عوامی خدمات کی مالی اعانت کیسے کرتے ہیں؟ یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا ہم سب کو سامنا ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہم سب یہاں مختلف ممالک کے شہروں سے آئے ہیں اور آج ہمیں ایک مشترکہ مسئلہ کا سامنا ہے کہ اپنے شہریوں کو اعلیٰ معیار کی خدمات کیسے فراہم کی جائیں۔ 90 کی دہائی کے اواخر میں پوری دنیا کی حکومتوں کے لیے اپنے شہریوں کو تعلیم، صحت اور بجلی فراہم کرنا بہت مہنگا پڑ گیا۔ لہٰذا حکومتوں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک نے ان خدمات کو نجی ہاتھوں میں سونپ دیا۔ جس کی وجہ سے تمام چیزوں کا ٹیرف بڑھ گیا۔ حکومتیں بجٹ کا انتظام کرنے کے لیے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کے بجٹ میں بھی کٹوتی کرتی ہیں۔ اس سے معاشرے میں معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔