رام چندر گوہا
سدا رامیا ایک تجربہ کار سیاستداں ہیں۔ 5 سال وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر بھی فائز رہے اور قائد اپوزیشن کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دی۔ انہیں 13 بجٹ پیش کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ سدا رامیا کو ایک قابل اڈمنسٹریٹر کہا جاتا ہے۔ یعنی حکومت کس طرح چلائی جائے وہ اچھی طرح جانتے ہیں، دوسری بات یہ ہیکہ ساری ریاست میں وہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ صرف کرناٹک کے ایک حصہ میں ہی مقبول نہیں ہیں بلکہ ساری ریاست میں مقبول ہیں۔ ان کا امیج بھی بے داغ ہے۔ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات بھی نہیں ہیں۔ وہ صاف ستھرے امیج کے لیڈر ہیں اور کانگریس قیادت نے انہیں عہدہ چیف منسٹری پر فائز کرنے کا بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن سے قبل جو سروے ہوئے اس میں 40 فیصد عوام نے انہیں چیف منسٹر کی حیثیت سے پسند کیا جبکہ دوسرے نمبر پر بومائی رہے جن کے حق میں 18 فیصد لوگوں نے رائے دی۔ کرناٹک کے جو عوام ہیں وہ چاہتے ہیں کہ صاف سرکار ہو اچھی سرکار ہو دل والی سرکار ہو ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تعصب نہ برتے اور ٹھیک طریقہ سے 5 سال حکومت کرے۔ امیت شاہ نے بہت غرور و تکبر سے کہا تھا کہ ہم کانگریس سے پاک بھارت بنانا چاہتے ہیں اور ان کے سامنے کیا ہے۔ بی جے پی سے پاک جنوبی ہند ہے، چھوٹا سا علاقہ پانڈیچری مرکزی زیر انتظام علاقہ میں وہ اقتدار میں ہے اور وہاں بی جے پی کیسے اقتدار میں آئی سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ جنوبی ہند کی جو پانچ بڑی ریاستیں ہیں کیرالہ، تاملناڈو، کرناٹک، تلنگانہ اور آندھرا پردیش ان میں 5 الگ جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ ترقی یافتہ اور ہر لحاظ سے خوشحال ریاست کیرالہ میں کمیونسٹوں کی حکومت ہے۔ تاملناڈو میں ڈی ایم کے کا اقتدار ہے۔ آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس اور تلنگانہ میں بی آر ایس اور کرناٹک میں کانگریس کی حکومتیں ہیں۔ اس کا مطلب بھارت کی کثرت میں وحدت اور وفاقیت جو ہے وہ مثالی ہے اس لئے ہیں یہاں نہیں ہیکہ سب ایک زبان بولیں۔ ایک ہی شخص کی پوجا کریں۔ ایک ہی مندر میں جائیں، ایک ہی بھگوان ہو، ایک ہی طریقہ کا کھانا کھائیں یا ایک ہی طریقہ سے شادی کریں۔ بھارت ایسا ملک نہیں ہے مگر ہم تہذیبی تنوع کو مانتے ہیں کہ طاقت، تہذیبی تنوع اور کثرت میں وحدت میں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک جنوبی ہند کا سوال ہے یہ صرف معاشی لحاظ سے ہی ترقی یافتہ نہیں بلکہ یہاں فرقہ وارانہ فسادات کم ہوتے ہیں۔ یہاں پر خواتین کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔ یہاں سائنٹفک دلائل کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ریسرچ کی جاتی ہے، اختراعی صلاحیتوں کی قدر کی جاتی ہے۔ اختراعی صلاحیتوں کا یہاں بول بالا ہے اور اس کی روایت ہے۔ سارا ملک جنوبی ہند سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ صرف سیاسی نہیں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی سارا ملک جنوبی ہند اور اس کی ریاستوں سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی حکومت میں جو کچھ غلط کام ہوئے مذہب کی بنیاد پر عوام سے تعصب و جانبداری برتی گئی، حجاب اور حلال کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ عیسائیوں پر مظالم ڈھائے گئے۔ بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور وہ کانگریس کے مقابل شرمناک شکست سے دوچار ہوئی۔ بی جے پی نے اپنے اقتدار کے دوران جو کچھ کرسکتی تھی کیا کیونکہ اس کے پاس میڈیا تھا۔ اڈمنسٹریشن تھا اور میں مانتا ہوں کہ اسمبلی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں اس کے لئے نریندر مودی ذمہ دار ہیں۔ ساتھ ہی میں مانتا ہوں کہ یہ نتائج امیت شاہ کی سیاست کا جواب ہے کیونکہ تخریبی سیاست کی آپ جو بات کررہے ہیں حلال، حجاب ٹیپو سلطان یہ سب امیت شاہ جی کرناٹک میں تین سال سے کررہے ہیں اور کرناٹک کے شہریوں نے اس کا سخت جواب دیا کہ ہمیں تقسیم مت کرو۔ جب انتخابات ہو رہے تھے اس وقت منی پور کے حالات بہت خراب تھے۔ منی پور میں دو فرقوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا تھا اور ہمارے وزیر داخلہ امیت شاہ اس پر توجہ دینے کی بجائے وہاں پر امن و امان کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے کرناٹک میں ہمارا بٹوارا کررہے تھے۔ وہ تین سال سے کرناٹک میں ہندو اور مسلمان کررہے تھے۔ مودی جی تو آخر میں آئے انہوں نے بھی ان ہی خطوط پر کوشش کی جس پر امیت شاہ چل رہے تھے۔ انہوں نے بجرنگ بلی کی بات کی نعرے لگائے، دی کیرالا اسٹوری کی بات کی۔ امیت شاہ تین سال سے یہ کوشش کررہے تھے کہ کرناٹک کو گجرات یا اترپردیش جیسا بنا دیا جائے اور یہاں کے ہمارے مسلم بھائی بہنوں کو ڈرایا جائے دھمکایا جائے۔ انہیں الگ تھلگ کردیا جائے۔ انہیں چپ کیا جائے یہ ان کی کوشش تھی۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی کوشش یہی تھی کہ کرناٹک کو جنوبی ہند کی ہندوتوا لیباریٹری بنائے جس میں انہیں ناکامی ملی اور اب جو کرناٹک کے لوگ ہیں انہیں ایک نئی طاقت ملے گی۔ تلنگانہ کے عوام بھی چوکس ہو جائیں گے کیونکہ بھاجپا تلنگانہ میں بھی لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ میرا ماننا ہیکہ کرناٹک میں صرف مودی اور امیت شاہ کی نہیں بلکہ سنگھ پریوار کے نظریہ کی ہار ہے لیکن تب بھی ہمیں آرام سے نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اب سدا رامیا جی کا کام ہے کہ اچھی حکومت چلائیں۔ عوام موافق حکومت چلائیں۔ رشوت خوری کا خاتمہ کریں۔ ہماری نوجوان نسل کو فرقہ پرستی کے زہر سے بچائیں۔ حجاب پر بی جے پی حکومت نے جو پابندی عائد کررکھی تھی اسے ختم کریں۔ ریاست میں تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ مرکوز کریں۔ جن چیزوں پر بھاجپا نے کوئی توجہ نہیں دی اس پر توجہ دیں۔ بی جے پی اقلیتوں کی شہریت سے متعلق بنیادی حقوق ختم کرنا چاہتی ہے اور سدارامیا پہلے ہی سے اس کے خلاف ہیں۔ وہ ترقی کی سیاست پر گامزن ہوں گے عوام کی ترقی کے لئے کام کریں گے۔ تاملناڈو، کیرالا اور آندھرا پردیش میں بی جے پی کو بہت کم پارلیمانی نشستیں ملیں گی۔ کرناٹک میں اسے زیادہ نشستیں مل سکتی ہیں کیونکہ کرناٹک میں گزشتہ 25 سے 30 سال کے دوران اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے مختلف نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ تب بھی ہمیں امید ہیکہ اس مرتبہ بی جے پی کی نشستوں پر اثر پڑسکتا ہے۔ میں کانگریس جے ڈی ایس کا حامی نہیں ہوں لیکن میں ضرور بی جے پی اور ہندوتوا کے خلاف ہوں۔ میرے سمجھ میں بی جے پی اور ہندوتوا ملک کو بالکل غلط راہ پر لے جارہے ہیں اور اس سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ پچھلی بار بھاجپا کو کرناٹک کی 28 میں سے 26 نشستیں ملی اب ان میں کمی آسکتی ہے۔ کیرالہ میں بی جے پی برسوں سے کوشش کررہی ہے لیکن وہاں بی جے پی کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اب ملک میں حکومت کے خلاف جذبات ابھررہے ہیں۔ نریندر مودی 9 سال سے اقتدار میں ہیں وہ پہلے خود کو چائے والا اور فقیر کہا کرتے تھے لیکن اب وہ چائے والا رہے نہ ہی فقیر ہیں۔ بی جے پی کچھ کچھ علاقوں میں کمزور ہو رہی ہے۔ جنوبی ہند میں بھاجپا کمزور ہوئی ہے مہاراشٹرا اور بہار میں بھی اس کی مقبولیت گر گئی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کی مقبولیت گرتی جارہی ہے۔ اترپردیش، گجرات، راجستھان، چھتیس گڑھ، آسام میں 200 تا 250 پارلیمانی نشستیں ہیں جہاں نریندر مودی کا اثر ہنوز باقی ہے جسے ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئے۔ بھاجپا حکومت ایک ہی شخص کے اطراف گھوم رہی ہے اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ راہول گاندھی نے حالیہ عرصہ کے دوران شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کڑی محنت کی لیکن وہ فی الوقت نریندر مودی کے متبادل نہیں ہوسکے۔ راہول گاندھی نے فرقہ پرستی کے اس دور میں بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ ابھی کام کیا ہے۔ اروند کجریوال کے لوگ بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کے لوگ ممتابنرجی کو فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے والی واحد لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بھارت جوڑو یاترا نے راہول گاندھی کا نیا چہرہ دکھایا ہے لیکن انہیں اب بھی مودی کا متبادل نہیں کہا جاسکتا۔ 2024 میں ہمیں چاہئے کہ جہاں کانگریس اور بی جے پی کا مقابلہ تقریباً دو سو نشستوں پر ہوا جس میں 161 نشستوں پر کانگریس کو کامیابی ملی ایسے میں کانگریس کو بہت محنت کرنی ہوگی۔ یہاں اب بھی کھیل جاری ہے۔ سارے جنوبی ہند میں بھاجپا 15-20 نشستیں حاصل کرسکے گی۔ بھاجپا یوپی، گجرات، آسام میں بی جے پی 80 فیصد نشستیں حاصل کرے گی چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، ہماچل وغیرہ میں کانگریس سے بی جے پی کو مقابلہ درپیش ہے بی جے پی کی موجودہ نشستوں میں سے 150 نشستوں پر شکست ہوتی ہے تو بی جے پی کو 2024 کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگی ورنہ مودی ہی کامیاب ہوں گے۔