آدتی فڈنیس
ڈی کے شیوکمار نے حال ہی میں کرناٹک کانگریس کی ریاستی یونٹ کے صدر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کیا۔ آخر شیوکمار کون ہے؟ اور کیا ان کے کانگریسی ریاستی یونٹ کے صدر بنانے کی کوئی اہمیت ہے؟
2018 کرناٹک اسمبلی انتخابات کے موقع پر جب شیوکمار نے اپنا حلف نامہ داخل کیا تھا اس وقت انہوں نے اور ان کی بیوی نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 730 کروڑ روپے مالیتی اثاثہ جات کے مالک ہیں۔ انہوں نے حلف نامہ میں اپنا پیشہ سماجی ورکر بتایا تھا۔ وہ اس قدر دولت مند ہیں کہ کچھ بھی خرید سکتے ہیں اور اپنی مرضی و منشا کے مطابق کرسکتے ہیں لیکن جنوبی کرناٹک میں اقتدار کی کرنسی دراصل اراضی اور ذات پات ہوتی ہے۔ شیوکمار ذات کے لحاظ سے ووکا لیگا ذات سے تعلق رکھتے ہیں ان کی پیدائش اُسی علاقہ کے ایک زرعی خاندان میں ہوئی جس علاقہ سے ایچ ڈی دیوے گوڑا کا تعلق ہے۔ جہاں تک ایچ ڈی دیوے گوڑا کا سوال ہے وہ ریاست میں ووکا لیگا ذات کے ایک قد آور لیڈر ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ دیوے گوڑا شیوکمار کو ایک طویل عرصہ سے چیلنج کے طور پر دیکھا کرتے ہیں کیونکہ دونوں کا تعلق ایک ہی ذات سے ہے اور دونوں دولت مند بھی ہیں۔ جہاں تک شیوکمار کا سوال ہے وہ ہمیشہ سے ہی کانگریس میں رہے سب سے پہلے انہوں نے اس وقت یوتھ کانگریس میں شمولیت اختیار کی جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے۔ 1983 اور 1985 کے درمیان شیوکمار نے یوتھ کانگریس کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوں نے دیوے گوڑا کے خلاف 1985 میں پہلی مرتبہ ستنور سے مقابلہ کیا اور غیر متوقع طور پر معمولی ووٹوں کے فرق سے انہیں ناکامی ہوئی، اس ناکامی کو بھی شیوکمار کی بہت بڑی کامیابی تصور کیا گیا کیونکہ دیوے گوڑا اس وقت راما کرشنا ہیگڈے کی حکومت میں ایک سینئر وزیر تھے، لیکن دیوے گوڑا جنہوں نے دو نشستوں پر مقابلہ کیا تھا ستنور کی نشست خالی کرنے کو پسند کیا اور دوسری نشست برقرار رکھی جب ستنور حلقے کے ضمنی انتخابات ہوئے اس وقت شیوکمار نے پھر مقابلہ کیا جس میں انہیں کامیابی ہوئی۔ تب سے ہی شیوکمار اور دیوے گوڑا فیملی کے درمیان سیاسی جنگ کا آغاز ہوگیا اور ہمیشہ یہ جنگ جاری رہی۔
دوسری طرف شیوکمار نے بنگلورو سے متصل دیہی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا۔ اس دوران اراضیات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا تب شیوکمار نے کانکنی اور دوسرے کاروبار میں بھی سرمایہ مشغول کرنا شروع کردیا۔ 1989 کے اسمبلی انتخابات میں شیوکمار نے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کیا اور کامیاب ہوئے۔ دو سال بعد وہ ریاست کرناٹک کے سب سے کم عمر وزیر بن گئے اور اس وقت کے چیف منسٹر بنگارپا کی زیر قیادت 1991 تا 1992 میں مملکتی وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعد میں 1999 میں ایس ایم کرشنا کی زیر قیادت حکومت تشکیل پائی۔ شیوکمار نے ایس ایم کرشنا کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے اور یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایس ایم کرشنا کے آنجہانی داماد وی جی سدھارتھا کے ساتھ کیفے کافی ڈے کے کاروبار میں بھی وہ شامل رہے۔
ب تک شیوکمار 7 مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں وہ تجارتی میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی کامیاب رہے اور ان کی اس کامیابی کا راز سخت محنت ہے۔ شیوکمار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سیاسی مقام اور طاقت و مرتبہ حاصل کرنے کے لئے اپنی شخصی دولت کا استعمال کیا۔ اس طرح کی کہانیاں بہت مشہور ہیں اور اس بارے میں سب جانتے ہیں۔ سال 2002 میں جب اس وقت کے مہاراشٹرا کے چیف منسٹر اور کانگریسی لیڈر آنجہانی ولاس راو دیشمکھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جانے والی تھی اور ان کی ہار یقینی تھی اس وقت شیوکمار کرناٹک میں شہری ترقیات کے وزیر تھے۔ انہوں نے کانگریسی ارکان کو فروخت ہونے سے بچانے کے لئے نہ صرف کرناٹک منتقل کیا بلکہ ایگل ٹن تفریحی مقام میں انہیں رکھا (اس تفریحی مقام کی دیواریں اگر بول سکتی تو کئی راز اگلتی) پھر بعد میں ان ارکان اسمبلی کو تحریک اعتماد کے دن ممبئی منتقل کیا۔ اس طرح ولاس راو دیشمکھ نے تحریک اعتماد جیت لیا۔ جہاں تک دیوے گوڑا کی فیملی اور کیمپ کا سوال ہے اس کے ساتھ شیوکمار کے کبھی بھی دوستانہ تعلقات نہیں رہے بلکہ سیاسی چال بازی کے تحت دونوں نے شراکت داری کی۔ کانگریس پارٹی کے دوسرے قائدین کے برخلاف کمارا سوامی کی نظر میں شیوکمار ایک ایسے سیاسی قائد ہیں جن کے ساتھ معاملات کی جاسکتی ہیں یہی وجہ تھی کہ جس وقت شیوکمار کو انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے گزشتہ سال ستمبر میں منی لانڈرنگ کے الزامات کے تئیں گرفتار کیا تھا تب ایچ ڈی کمارا سوامی نے اپنی پارٹی جنتادل (سیکولر) کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقی ایجنسیوں پر اقتدار کے بیجا استعمال کے الزامات عائد کئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ شیوکمار کو اندرون ماہ ضمانت دے دی گئی اور جسٹس سریش کیت نے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ پر شدید برہمی ظاہر کی کیونکہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے وکیل سماعت کے موقع پر حاضر ہونے میں ناکام ہوگئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ کانگریس ریاست میں شیوکمار کی خدمات استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اس میں اضافے کی خواہاں ہے۔