پروفیسر اَپورو آنند
دہلی کے سابق ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسوڈیا کی گرفتاری بالکل غلط ہے۔ یہ سمجھنے اور کہنے کیلئے کسی کو ماہر قانون یا وکیل ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس کی سیدھی سادھی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسے فرد نہیں ہیں جس کے بیرون ملک فرار ہونے کا خدشہ ہو، اچھی بات یہ ہے کہ وہ بناء کسی رکاوٹ کے تحقیقاتی عہدیداروں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور ہماری ایجنسیاں جتنی مرتبہ چاہیں ان سے پوچھ گچھ کرسکتی تھیں۔ قانون کا یہ اصول ہے کہ کسی شخص کو پوچھ گچھ یا محض اس کا بیان لینے کیلئے گرفتار نہیں کیا جاسکتا، لیکن افسوس کے ہندوستان میں پولیس کی جانب سے اس اصول کی خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔ ویسے بھی لوگوں کو بولنے اور خاموش رہنے کے حقوق حاصل ہیں اور خاص طور پر پولیس کسی کی یہ کہہ کر گرفتاری کا اور اسے تحویل میں لئے جانے کا مطالبہ نہیں کرسکتی کہ وہ شخص بات نہیں کررہا ہے یا بول نہیں رہا ہے۔ تحقیقاتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ ملزم (سسوڈیا) کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ کرنا چاہتے ہیں، اس لئے اسے گرفتار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کے تحت منیش سسوڈیا کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک سینئر وکیل شاہ رخ عالم نے پولیس کے اس عام طرز عمل کا دوسرے ملکوں میں اختیار کئے جانے والے طرز عمل سے موازنہ کیا ہے اور زیادہ مہذب پولیسنگ کی دلیل دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مودی حکومت کے ناقدین اور ناراض عناصر کی گرفتاریوں کے پیچھے کارفرما جو اغراض و مقاصد ہیں، وہ کسی فرد کو ذلیل کرنا، دہشت زدہ کرنا، تشدد برپا کرنا یا سزا دینا ہے؟ ہر کسی کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ تفتیش بذات خود نشانہ بننے والے شخص کیلئے سزا نہیں ہونی چاہئے، لیکن اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے اور خاص طور پر اس کیس میں مرکزی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے منیش سسوڈیا کے خلاف جرم کے ثبوت اکٹھا کئے ہیں اور مزید ثبوت ان سے اگلوانا چاہتی ہے تاہم دوسرے کیس میں بھی ثبوت و شواہد جمع کرنے کا عمل گرفتاری کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ افسوس یہ ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ ان جماعتوں نے اس وقت بھی ایسا نہیں کیا جب سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم کو تحقیقات اور پوچھ گچھ کے نام پر گرفتار کیا گیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ہائیکورٹ بھی ان کی درخواست ضمانت مسترد کرتی رہی۔ وہ سپریم کورٹ ہی تھی جو بالآخر ان کے بچاؤ میں آگے آئی جبکہ ہائیکورٹ کے فیصلے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین نے اُس وقت اپنے منہ نہیں کھولے جب پولیس نے شرجیل امام کو گرفتار کیا یا پھر کیرالا کے صحافی صدیق کپن کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا۔ ایک اور بات ہے کہ جب پولیس کسی شخص کی تحویل کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ اس کی تفتیش ابھی جاری ہے، یہ سراسر ایک دھوکہ ہے۔ پولیس اکثر و بیشتر وقت طلب کرنے اور چارج شیٹ تیار کرنے اور پیش کرنے کیلئے مدت بڑھانے کی آزادی بھی لیتی ہے اور اس کے بعد درخواست کرتی ہے کہ وہ ضمنی چارج شیٹ پیش کرے گی۔ اس طرح تاخیر کا یہ حربہ ہمیشہ جاری رہ سکتا ہے اور اس حربہ کا مقصد کسی مبینہ ملزم کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دینا ہوتا ہے، اسے ستانا ہوتا ہے۔ ہم نے ایسے کئی افراد کو دیکھا ہے جو اپنے مقدمہ کے آغاز کا انتظار کرتے ہوئے کئی برسوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ اس ضمن میں تازہ ترین کیس اپلگار پریشد کے نام پر بے شمار سماجی و حقوق انسانی کے جہدکاروں کا جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی ہمارے ذہنوں میں دہلی فسادات کی سازش جیسے نام نہاد کیس بھی آجاتے ہیں جس میں بے شمار بے قصور لوگوں کو پھنسایا گیا اور آج بھی کئی لوگ جیلوں میں قید و بند کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ بہت ہی بدبختی کی بات ہے کہ بعض کانگریس قائدین سسوڈیا کی گرفتاری پر خوشیاں منارہے ہیں، ساتھ ہی چیف منسٹر اروند کجریوال کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرتے ہوئے کانگریس، مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں کی توثیق کررہی ہے۔ یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ جب آپ اصول قربان کردیتے ہیں کیونکہ اس سے آپ کے مخالف کو تکلیف ہوتی ہے، اس کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو پھر سمجھ لیجئے کہ اصولوں کی خلاف ورزیوں کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔ ایسا سلسلہ جو بعد میں رکانے پر بھی نہیں رک پاتا۔ ہمیںیہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی اپنے مخالفین اور ناراض عناصر کو ڈرانے دھمکانے کیلئے گرفتاریوں اور طویل مدت تک قید میں رکھنے کے کلچر کو استعمال کررہی ہے، وہ اس کے لئے اپنے حامیوں اور سرکاری ایجنٹوں کو استعمال کررہی ہے اور انہیں ایسی تربیت دی گئی ہے کہ وہ باقاعدہ طور پر خون کا مطالبہ کرنے لگے ہیں اور اسی تناظر میں اپنے بھکتوں کو خوش کرکے اپنا اُلو سیدھا کرنے کی خاطر مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں یا پھر انہیں قانونی کارروائی کے ذریعہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ دراصل حکومت کے مخالفین کو ذلیل و خوار کرنے کا ایک طریقہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر پی چدمبرم کی گرفتاری، راہول گاندھی یا سونیا گاندھی سے ایک طویل مدت تک پوچھ تاچھ، شرجیل امام کی طویل مدت تک قید دراصل بھکتوں کو سکون فراہم کرنے کی ایک عادت بن گئی ہے۔ اب تو قدیم ٹوئٹس پر بھی قانونی کارروائیوں کا جواز پیش کیا جارہا ہے چنانچہ منیش سسوڈیا اور عام آدمی پارٹی میں ان کے رفقاء کو ان ہی کے پرانے ٹوئٹس سے جو اُن لوگوں نے ’’اِنڈیا اَگینسٹ کرپشن‘‘ مہم کے دوران کئے تھے، نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس مہم کے دوران منیش سسوڈیا اور ان کے رفقاء لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ یادو کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔ سسوڈیا نے اپنے ٹوئیٹس میں لالو اور ملائم کا مذاق اُڑاتے ہوئے یہ سوال کیا تھا کہ اگر انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے تو گرفتاری سے ڈر کیوں رہے ہیں؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ’’اِنڈیا اَگینسٹ کرپشن‘‘ مہم کے ایک لیڈر ایک ٹی وی چیانل پر مباحث میں لالو یادو کو ’’چور‘‘ کہہ رہے تھے اور جب میں نے ان سے کہا کہ انہیں ایسا نہیں کہنا چاہئے، وہ اپنے موقف کو منصفانہ قرار دے رہے تھے، جیسے لالو پرساد یادو ایک سارق ہوں۔ کبھی کسی کو بھی شاید اس کا اندازہ نہیں تھا کہ آیا ’’اِنڈیا اَگینسٹ کرپشن‘‘ مہم جو بعد میں عام آدمی پارٹی میں تبدیل ہوگئی، اس کے پیغامات کو بی جے پی اور آر ایس ایس اس قدر گھٹیا انداز میں استعمال کریں گی، ویسے بھی دشمنوں کو پیدا کرنا اور انہیں سزائیں دینا ایک طرح کا نشہ اور ایک طرح کی لعنت ہے اور عامی آدمی پارٹی بھی اس کے لئے ذمہ دار ہے۔ وہ کل دوسروں کو نشانہ بناتی تھی، ان پر الزامات عائد کرکے ان دشمنوں کو خوشی کا موقع فراہم کرتی تھیں لیکن آج AAP اور اس کے لیڈر خود اس طرح کے الزامات کی زد میں آگئے ہیں۔