کرکٹ ایک کھیل ہے ، جنگ نہیں

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس
آج ٹی۔ 20 ورلڈ کپ اپنے اختتام کو پہنچے گا اور یہ معلوم ہوجائے گا کہ فاتح یا چمپین کون ہے۔ ہندوستان تو نہیں ہوگا۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ نے ٹی۔ 20 ورلڈ کپ کے ابتدائی دو میچس میں ٹیم انڈیا کو بری طرح جھٹکا دیا اور دونوں میچس میں ہماری ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے میچ میں پاکستان نے انڈیا کو 10 وکٹس سے ہرایا اور دوسرے میچ میں نیوزی لینڈ نے ہندوستان کے خلاف 8 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے، کرکٹ کھیلنے والے دوسرے ملک کی ٹیم کی طرح پاکستانی ٹیم بھی ایک سخت حریف کی حیثیت رکھتی ہے، تاہم کرکٹ کے میدان میں پاکستان کا مقابلہ ہندوستان سے ہوتا ہے تو اسے دو کٹر دشمنوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی اور جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اب تک ایسا ہی ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف کرکٹ کی عداوت نہیں جو ہزاروں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کو اس قسم کا عداوت پر مبنی رویہ اپنانے پر مجبور کیا ہے۔ ہند ۔ پاک میچ کے دوران دونوں ملکوں کے عوام کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ سوچنا چاہئے کہ بالآخر یہ ایک کھیل ہے اور کھیل کو کھیل کی حیثیت سے ہی دیکھنا چاہئے۔
کھیل بدل گیا ہے
ایک ایسا وقت تھا جب ہندوستان میں کرکٹ شہروں میں کھیلی جاتی تھی اور خاص طور پر اسے متوسط طبقے کا گیم کہا جاتا تھا۔ اُس وقت کھلاڑیوں کی تعریف و ستائش کی جاتی تھی تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوسکے، ان کی پوجا نہیں کی جاتی تھی، ان کی مورتیاں نہیں بنائی جاتی تھیں۔ اپنی نجی زندگیوں میں کھلاڑی بھی عام قسم کے روزگار سے وابستہ رہا کرتے تھے۔ ان کی بیویاں بھی شادی کے فوری بعد ممتاز شخصیتوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوتی تھیں۔ ان کرکٹ کھلاڑیوں کو معمولی رقم دی جاتی تھی۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے وہ اچھی خاصی دولت نہیں کماتے تھے۔ ایسے میں ہمارے کرکٹ کھلاڑی مختلف مصنوعات کے اشتہارات میں کام کرتے ہوئے آمدنی کے اضافی وسائل پیدا کرتے۔ (باپو نڈکرنی بائیں ہاتھ کے گیند باز جو میڈ اِن پر میڈ اِن اوورس ڈالا کرتے تھے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ برابون اسٹیڈیم ممبئی پہنچنے کیلئے مضافاتی علاقہ سے ٹرین میں سفر کرکے آتے تھے اور انہیں ہندوستانی ٹیم کیلئے ایک ٹسٹ میچ کھیلنے پر یومیہ 50 روپئے بطور معاوضہ ادا کیا جاتا تھا) لیکن اب کرکٹ کا کھیل پوری طرح بدل چکا ہے اور اس کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور مقبولیت کے ساتھ ساتھ ماضی میں جو پانچ روزہ ٹسٹ کا تصور تھا، اُسے سست اور اکثر اکتا دینے والا کھیل تصور کیا جانے لگا اور تو اور ٹسٹ میچس کے بارے میں یہاں تک کہا جانے لگا کہ پانچ دنوں کے کھیل میں جو نتیجہ آتا ہے وہ بھی غیریقینی ہوتا ہے چنانچہ اس کھیل میں ونڈے کے ساتھ تبدیلی کا آغاز ہوا اور ایک روزہ میچس میں فریقین پچاس پچاس اوورس تک کھیلتے اور اُسے ونڈے انٹرنیشنل میچس کا نام دیا گیا۔ یہ ایسے میچس ہیں جن میں مقابلے کے برابری پر ختم ہونے یا ڈرا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ ایسا میچ ہوتا ہے جس میں ہر حال میں ایک ٹیم فاتح ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شاذ و نادر ہی میچس ’ٹائی‘ ہوتے ہیں اور اس کا بھی فیصلہ کرنے کیلئے ٹائی بریکر کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے بعد ایک ٹیم فاتح کی حیثیت سے ابھر آتی ہے۔ پہلے ٹسٹ میچس پھر ونڈے انٹرنیشنل اور اب پچھلے چند برسوں سے ٹی ٹوئنٹی کا آغاز عالمی کرکٹ میں ایک ڈرامائی تبدیلی تھی۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ہم پہلے ٹسٹ فارمیٹ سے مانوس تھے پھر شائقین کی اکتاہٹ کو دیکھتے ہوئے 50 اوورس کا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ شروع کیا گیا اور اس سے بھی کئی قدم آگے بڑھاتے ہوئے 20 اوورس کا ورژن متعارف کروایا گیا۔ آگے کیا ہوگا، اس بارے میں کوئی نہیں جانتا، لیکن جو کچھ بھی ہوگا، وہ شائقین کرکٹ کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کیا جائے گا۔ اگر میں اس بارے میں قیاس آرائی کروں تو اگلا فارمیٹ فریقین کیلئے 50، 50 اوورس کا ہوگا اور دونوں ٹیمیں دو، دو اننگز کھیلیں گی اور یہ عمل تین روز میں مکمل ہوسکتا ہے اور ہم اسے تین روزہ ٹسٹ میچ کہہ سکتے ہیں۔ جہاں تک کرکٹ کا سوال ہے، بے شمار ممالک میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے اور کئی ایسے ملک ہیں جن کی ٹیموں نے ناآزمودہ اور ناتجربہ کار ٹیم کے طور پر کھیلنا شروع کیا اور پھر ایسی ٹیموں میں تبدیل ہوگئے جو دنیا کی کسی بھی بہترین ٹیم کو شکست دے سکتے ہیں۔ اس معاملے میں افغانستان ہمارے لئے ایک روشن مثال ہے (ورلڈ کپ کے پانچ میچس میں سے افغانستان نے 2 میں کامیابی حاصل کی ) یہ عجیب حسن اتفاق ہے، جن 12 ممالک نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں حصہ لیا، وہ تمام کے تمام انگریزی بولنے والے ممالک ہیں۔ اگرچہ میرا خیال ہے کہ ان ملکوں کی کرکٹ ٹیموں میں جو کھلاڑی ہیں، وہ ہندی، اُردو، بنگالی، سنہالا، فارسی، پشتو، آفریکانس یا اوشی وامبو جیسی زبانیں بولتے ہیں۔ اگر یہ کھیل غیرانگریزی داں ممالک خاص طور پر یورپ اور جنوبی امریکی ممالک میں بھی فروغ پاتا ہے تو یہ حقیقت میں فٹبال یا ٹینس کی طرح عالمی کھیل بن جائے گا۔
جذبات کی بنیاد
یہ بہت تشویش کی بات ہے کہ کرکٹ کے میدان میں خود کو ایک دوسرے کا حریف تصور کرنے کے بجائے ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کو دشمن تصور کرتے ہیں۔ کرکٹ کو چھوڑ کر کوئی ایسا کھیل نہیں جس میں دونوں ملکوں کے کھلاڑی غیرمعمولی جذباتی ہوجاتے ہوں اور ان کے رویوں سے عداوت کا اظہار ہوتا ہو۔ آپ کو یاد ہوگا کہ حالیہ اختتام کو پہنچے اولمپکس میں ہندوستان کے نیرج چوپڑا نے پاکستان کے ارشد ندیم کو شکست دی اور اولمپک چمپین ہونے کا اعزاز حاصل کیا لیکن اولمپک میں ایک پاکستانی اتھلیٹ کے خلاف ہندوستانی اتھلیٹ کی کامیابی پر پاکستانی شائقین نے کسی قسم کی برہمی یا نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ میرے خیال میں یہ کرکٹ کا میچ ہوتا تو پھر بہت زیادہ جذباتی خیالات منظر عام پر آتے۔ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اولمپکس میں ارشد ندیم کو نیرج چوپڑہ پر فتح حاصل ہوتی تب بھی ہندوستان میں کسی قسم کی نفرت یا برہمی کا اظہار نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ کرکٹ نہیں ہے، لیکن جہاں تک کرکٹ کا معاملہ ہے، ہند و پاک میں اسے جذباتی بنا دیا گیا۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جو جذباتی مسئلہ بنا ہے ، اس کا کسی نہ کسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان لڑی گئی دو جنگوں ، سرحد پار دہشت گردانہ سرگرمیوں اور اشتعال انگیز بیان سے تعلق ہے، لیکن جب ہاکی، باکسنگ یا کشتی کے مقابلے ہوتے ہیں اور اس میں ہند و پاک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں ، کوئی جیتتا ہے اور کوئی ہارتا ہے تب یہ جنگ کے مناظر پیش نہیں کرتے۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس عداوت نے خراب موڑ اختیار کرلیا ہے جس کے نتیجہ میں مختلف کھلاڑیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جب ہندوستان کو ناکامی ہوئی ، اس کے فوری بعد سوشیل میڈیا پر ٹیم انڈیا کے تیز گیند باز محمد سمیع کو گالیاں دی گئیں۔ ان کے خلاف قابل اعتراض تبصرے کئے گئے اور اس کی یقینی اور ناقابل تردید وجہ یہ تھی کہ محمد سمیع ایک مسلم ہے۔ محمد سمیع پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے خراب مظاہروں کے ذریعہ ہندوستان کو ہرادیا۔ یہ ایسا الزام ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور چیز مضحکہ خیز نہیں ہوگی۔ محمد سمیع کو سوشیل میڈیا اور اس کے دوسرے پلیٹ فارمس پر گالی گلوج کرنے والے یہ بھول گئے کہ محمد سمیع نے ایسے کتنے میچس کھیلے ہیں جس میں اپنی بولنگ کے ذریعہ ہندوستانی ٹیم کو کامیابی دلائی۔ محمد سمیع بے تکان محنت کرنے والے بولر ہیں جو توانائی سے بھرپور بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک کی ٹیم کو کامیابی دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ ایک اور تکلیف دہ بات یہ رہی کہ ایک پاکستانی وزیر نے یہ ریمارک کیا کہ ہندوستان پر پاکستان کی فتح اسلام کی جیت ہے۔ آپ کو بتا دوں کہ محمد سمیع کی طرح بے شمار مسلم کھلاڑیوں نے ہندوستان کے لئے قابل فخر کارنامے انجام دیئے۔ اس معاملے میں میرے ذہن میں جو فوری طور پر نام ابھر رہے ہیں ، وہ محمد اظہر الدین، عباس علی بیگ، سلیم درانی اور مرحوم منصور علی خاں پٹوڈی کے نام ہیں۔ ان میں سے محمد اظہر الدین اور منصور علی خاں پٹوڈی ہندوستان کے کپتان رہ چکے ہیں۔
زہر پھیلانا بند کیجئے
مجھے شبہ ہے کہ جو زہر ملک میں پھیلایا جارہا ہے، وہ اب کرکٹ اسٹیڈیم اور کرکٹ کے مشاہدہ کرنے والے کمروں تک پہنچ گیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے بہترین ادیبوں، شاعروں ، موسیقاروں ، مصوروں ، اداکاروں ، سائنس دانوں ، پروفیسروں ، اساتذہ ، ڈاکٹروں ، وکلاء ، آرکیٹکٹس ، تاجر و صنعت کاروں اور ارکان مقننہ میں مسلم بھی شامل ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ محمد سمیع پر برہمی کا اظہار کرنے والے عناصر کو ٹیم انڈیا کے کپتان ویراٹ کوہلی نے فوراً جواب دیا اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر اسپورٹس نے خاموشی اختیار کی۔ اس سلسلے میں ہمیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈرن سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب ایک سفید فام نسل پرست نے 51 مسلمانوں کو قتل کردیا تب انہوں نے صرف تین سادھے الفاظ ’’ہم ایک ہیں‘‘ کے ذریعہ شہریوں کو متحد کیا چنانچہ میں بھی ہندوستان میں اس قسم کے الفاظ سننا چاہتا ہوں۔