کسانوں نے مودی ۔ شاہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا

   

محمد ریاض احمد
وزیراعظم نریندر مودی۔ امیت شاہ جوڑی کو اس قدر طاقتور تصور کرلیا گیا کہ ان دونوں کیلئے اپنی ہر بات منوانا کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ نوٹ بندی کا عجیب و غریب فیصلہ ہو یا پھر جی ایس ٹی کے ذریعہ چھوٹے کاروباریوں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کرنے کا معاملہ یہاں تک کہ کورونا وائرس وباء کے پھوٹ پڑنے کے ساتھ ہی بغیر کسی منصوبہ اور تیاری کے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اقدام یا پھر جنت نشان ہندوستان کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے والی وادی کشمیر کو حاصل خصوصی موقف کا خاتمہ اور اسے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کی کارروائی، حد تو یہ ہے کہ من مانی طور پر بغیر کسی سے رائے لئے یا اپوزیشن کو خاطر میں لائے بناء دستور سے کھلواڑ کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) منظور کرلیا گیا۔ ان تمام عجیب و غریب فیصلوں اور اقدامات کے ذریعہ مودی اور امیت شاہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی نظر میں جو بہتر ہو وہ وہی کریں گے اور کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ کوئی ان کا راستہ روکے یا ان کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھائے۔ اس معاملے میں قانونی ماہرین نے عدلیہ خاموشی پر بھی سوال اُٹھائے ہیں۔ خود کو ناقابل تسخیر اور سب سے ہوشیار سمجھنے والے مودی اور امیت شاہ کے ساتھ ساتھ ان کے اَن دیکھے مشیران کو سب سے پہلے اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف جانباز مسلم خواتین و طالبات نے احتجاج شروع کیا جس میں ضعیف خواتین بھی شامل ہوئیں۔ اس موقع پر ایسے بے شمار خواتین کو دیکھا گیا جن کی گودوں میں شیر خوار بچے بھی تھے جو ایسا لگتا تھا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کے تحفظ کیلئے ماؤں کی گود میں لیٹے یا پھر دودھ پیتے ہوئے مودی حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہوں۔ سی اے اے کے خلاف شاہین باغ احتجاج نے ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج میں بلالحاظ مذہب و ملت تمام مرد و خواتین نے حصہ لینا شروع کردیا اور شاہین باغ نے عالمی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کروالی۔ اندرون و بیرون ملک مودی حکومت سے یہ کہا جانے لگا کہ آپ اور آپ کی حکومت نے جو شہریت ترمیمی قانون منظور کیا ہے، وہ دستور ہند اور ہندوستانی تہذیب و تمدن بالخصوص نظریہ کثرت میں وحدت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری اور سکیولر ملک ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر قوانین منظور نہیں کئے جاسکتے لیکن مودی اینڈ ٹیم کی ہٹ دھرمی، غرور و تکبر اور انانیت نے اسے سی اے اے جیسا متنازعہ بل واپس لینے سے روک دیا، لیکن عالمی سطح پر اس کی جو بدنامی ہوئی، شاید اس بدنامی کا بدنما داغ ان کے ماتھوں پر برقرار رہے گا۔ بعد میں مودی نے بقول راہول گاندھی ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ اور اپنے سرمایہ کار و صنعت کار دوستوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر کسان دشمن تین زرعی بلس منظور کئے۔ مودی اور ان کی ٹیم کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کسان ان قوانین کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں ہندوستان کی تاریخ کے سیاہ قوانین قرار دیں گے۔ بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ سنگھ پریوار کی محاذی تنظیموں یہاں تک کہ تلوے چاٹو ’’گودی میڈیا‘‘ نے بھی کسانوں کی برہمی اور ان کے احتجاج پر پردہ ڈالنے کی لاکھ کوششیں کر ڈالیں لیکن پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں کے کسان اس تحریک سے جڑنے لگے۔ اس طرح 344 دنوں سے کسانوں کا یہ احتجاج جاری ہے۔ بقول اپوزیشن مودی حکومت نے کسانوں کو پولیس کی لاٹھیوں، اس کی گولیوں سے ڈرایا، فرقہ پرست غنڈوں سے دھمکایا، احتجاجی کسانوں کی راہ میں کانٹے بچھائے، انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے سڑکوں پر کیل گاڑھے، خاردار تار لگوائے، بڑے بڑے ٹرالوں کے ذریعہ رکاوٹیں کھڑی کیں۔ کسانوں نے جہاں قیام کیا، وہاں پانی بند کردیا ، بجلی مسدود کردی ، غرض ظلم و جبر کے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ، اس پر بھی کسانوں کی پیش قدمی جاری رہی تب اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجیت مشرا اور ان کے بیٹے اشیش مشرا کی کاروں کے قافلے میں شامل ان کی اپنی کار کے ذریعہ چار کسانوں کو کچل دیا گیا، اس کے باوجود کسانوں کا راستہ روکنے میں وہ بری طرح ناکام رہی۔ 12 سے زائد مرتبہ حکومت نے کسانوں سے بات چیت کا ڈھونگ رچا اور بی جے پی زیرقیادت ریاستوں کے چیف منسٹروں، چند مرکزی وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر قائدین نے احتجاجی کسانوں کو بدنام کرنے کیلئے انہیں ملک دشمن، دہشت گرد، غنڈے، انتہا پسند، خالصتانی، اربن نکسل اور تکڑے تکڑے گینگ کے نام بھی دیئے۔ کسانوں نے اس طویل ترین احتجاج کے دوران یہ کہتے ہوئے مودی، امیت شاہ اور سنگھ پریوار کی نیندیں حرام کردیں کہ شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف مسلم خواتین نے جس بے باکی اور نڈرپن سے مودی حکومت کے خلاف طویل احتجاجی دھرنا منظم کیا اس دھرنے سے ہم کسانوں کو ایک نیا عزم و حوصلہ ملا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تقریباً ایک سال طویل احتجاج کے دوران زائد از 750 کسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ یہ اعداد و شمار ہم یوں ہی پیش نہیں کررہے ہیں بلکہ کسان قائد راکیش ٹکیت نے ببانگ دہل یہ بات کہی ہے۔ خود کو کسانوں کا سچا ہمدرد کہنے والے وزیراعظم کے بارے میں راکیش ٹکیٹ کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے ایک مہلوک کسان کے خاندان سے بھی اظہار تعزیت کرنا گوارا نہیں کیا۔ صرف پنجاب میں تقریباً 500 کسانوں کی موت ہوئی۔ کسان انتہائی نامساعد حالات اور سخت سردی، بارش اور گرمی میں بھی مودی حکومت کے خلاف ڈٹے رہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی 21 یونینوں نے احتجاج شروع کیا تھا جو مودی کے بلز واپس لینے سے متعلق اعلان کے باوجود بھی جاری ہے۔ کسانوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ انہیں مودی حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں، وہ جو کچھ کہتی ہے جھوٹ کہتی ہے، اس لئے پارلیمنٹ میں جب تک ان قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا تب تک کسانوں کا احتجاج جاری رہے گا۔ 19 نومبر کی صبح مودی نے جس انداز میں قوم سے خطاب کیا اور زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا ، ان کا اعلان اگرچہ اترپردیش اور پنجاب کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں امکانی شکست سے بچنے کی ایک چال ہے، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو 2024ء کے انتخابات میں بی جے پی اور ہندوتوا ایجنڈے کو بچانے کا ایک ہتھیار ہے، کیونکہ ساڑھے سات برسوں کے دوران اگرچہ عوام کو مذہب کی افیون دے کر اور پھر لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا گیا لیکن حالیہ عرصہ کے دوران مختلف ریاستوں کے 30 اسمبلی اور 3 پارلیمانی حلقوں کے ضمنی انتخابات کے جو نتائج آئے، ان نتائج نے مودی حکومت پر خوف و دہشت طاری کردی۔ کہا جاتا ہے کہ خفیہ رپورٹس میں اترپردیش جیسی اہم ترین ریاست سے بی جے پی اقتدار کے خاتمہ کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ ایسے میں مودی نے اپنے قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا اور کسانوں سے ’’سچے دل‘‘ سے معذرت خواہی کی۔ مودی کی یہ معذرت خواہی اور بلز واپس لینے کا اعلان دراصل ہندوستان کی جیت ، جمہوریت و دستور کی کامیابی، کسانوں، ہندوستانی شہریوں اور غریب عوام کی کامرانی کے ساتھ حقیقی قوم پرستوں کی فتح ہے۔ کسانوں نے مودی اور ان کی حکومت کے غرور و تکبر کو اپنے پیروں تلے روند دیا ہے۔ مودی کی معذرت خواہی فرقہ پرست درندوں ، قوم دشمن عناصر، پٹرول و ڈیزل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنے والے سرمایہ دار لٹیروں ، اقلیتوں کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے والی ٹولیوں اور خودساختہ قوم پرستوں کی شکست ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی حکومت، مہلوک کسانوں کے خاندانوں کو فی کس ایک کروڑ روپئے معاوضہ ادا کرے گی، شہریت ترمیمی قانون واپس لے گی جیسا کہ چیف منسٹر ٹاملناڈو ایم کے اسٹالن نے مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مودی حکومت فی الوقت اپنی امکانی شکست کو لے کر پریشان ہے ، ان حالات میں اسے مہنگائی بالخصوص پٹرول، ڈیزل اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں خطرناک حد تک ہوئے اضافہ کا بھی سبق سکھایا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کیلئے مودی حکومت کو گھیرنے کا زرین موقع ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com