اجئے گوڈا ورتھی
نریندر مودی حکومت کے گزشتہ 6 سال کے دوران کئی احتجاج بشمول طلبہ کا احتجاج اور مخالف سی اے اے احتجاج اور دلتوں کا احتجاج وغیرہ دیکھے گئے، تاہم ان احتجاجوں میں سے ہر ایک سے نمٹنے کے دوران حکومت نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور جارحانہ جوابی بیانات دیئے۔ طلبہ کے احتجاج اور مخالف سی اے اے احتجاج کو علی الترتیب قوم دشمنی اور جہاد کے مترادف قرار دیا گیا جبکہ دلتوں کے بھیما کوریگاؤں احتجاج کو ماسٹوں کے احتجاج جیسا قرار دیا گیا۔
کیا ان بیانات سے شہریوں کو اس بات پر یقین آگیا، کئی شہریوں سے جوابی بیانات حاصل کئے گئے لیکن ان احتجاجوں کے اخلاقی جواز، شکوک و شبہات اور بے چینی کا حقیقی اظہار نہیں ہوسکا اورنہ ان سے احتجاجی افراد کو فوری طور پر اپنا کوئی مقصد حاصل ہوا۔
کسانوں کا احتجاج سیاسی احتجاج نہیں ہے بلکہ یہ ٹھوس مطالبہ پر مبنی ہے۔ سماج کے تمام طبقات کی غذائی ضروریات کے بارے میں ان کے اندیشوں پر مشتمل ہے کیونکہ غذائی ضرورت بنیادی حق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس احتجاج سے ہندوستان میں ایک زرعی بحران گزشتہ کئی دہائیوں کے بعد پیدا ہوا ہے۔ کاشتکار زیادہ اخلاقی تائید رکھتے ہیں اور اعلیٰ ٹکنالوجی کے مشینی نظاموں کی بجائے ان کی جڑیں دیہاتوں میں پیوست ہیں ایسے عناصر کو دھمکی نہیں دی جاسکتی اور نہ دھمکی دے کر انہیں بے نقاب کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے مودی حکومت کے طرز حکمرانی کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔
کاشتکاروں کا نعرہ ہے ’’سرکار کی اصلی مجبوری۔ اڈانی، امبانی، جمع خوری‘‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعرہ بالکل درست ہے، کانگریس نے قبل ازیں ’’سوٹ بوٹ کی سرکار‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ موجودہ نعرہ عوام کی نظروں میں اس کے بہت قریب ہے اور موجودہ نعرہ زیادہ پرکشش ہے اس کی وجہ سے کاشتکاروں کی اخلاقی تائید میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ اب راست تنقید کا نشانہ نہیں بنائے جاسکتے۔ مودی کی قیادت اپنی حکمت عملی میں ناکام ہوچکی ہے۔ مودی کے پتلے جلائے جارہے ہیں، انہیں گناہ گار قرار دیا جارہا ہے اور ان کی دلیلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ کسانوں کی توہین ناقابل برداشت بن چکی ہے۔
یہ بیان دیگر کئی بیانات کی بہ نسبت زیادہ قابل فہم ہے۔ موجودہ حکومت کے نعروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی مودی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔ حکومت اب ایک بحران کا شکار بن چکی ہے، یہاں تک کہ اپوزیشن پارٹیوں نے احتجاج میں شامل ہو جانے کی جرأت دکھائی ہے۔ وہ سڑکوں پر آگئے ہیں اور کسانوں کے احتجاج کو حکومت کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے شہریوں کو ہمت دینے کی بجائے شہری اور کاشتکار اپوزیشن پارٹیوں کے لئے اہم بن گئے ہیں۔ جب حکمت عملی بے نقاب ہو جائے تو اپوزیشن کے خلاء کو پر کرنا احتجاجی کاشتکاروں کے لئے مشکل نہیں تھا۔ نئی جمہوریت کے لئے بیانات کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اکثریت کی حکومت کی ضرورت ہے، جیسی کہ موجودہ حکومت ہے۔ اس سے واضح طور پر یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ عوام حکومت کے جواز کو ہی چیالنج کریں گے۔ اس کی مقبولیت اور عوام کا انتخاب خطرہ میں پڑ جائے گا۔ موجودہ حکومت پورے سماج کے لئے قابل قبول کوئی حکمت عملی تیار کرسکتی ہے اور نہ اسے نافذ کرسکتی ہے۔
موجودہ حکومت کے بحران کی نوعیت بہت گہری ہے اور یہ مختلف سمتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ایک لحاظ سے موجودہ حکومت کو نازیوں کی فسطائی حکومت کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے۔ جرمن عوام کو یقین تھا کہ ہٹلر درست راستہ پر ہے لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی کو جو نقصان پہنچے اس سے ثابت ہوگیا کہ ہٹلر کی پالیسی بالکل غلط تھی۔ موجودہ حکومت زیادہ سے زیادہ طبقات کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن اسے اکثریت کے مٹھی بھر جذباتی اور پرجوش افراد کی تائید کے سوائے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ حقیقت میں کوئی بھی بھول نہیں سکتا کہ اگر موجودہ طرز حکمرانی جاری رہے تو جمہوریت کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ مودی کو اپنے حلقہ کے علاوہ دیگر افراد میں وسیع تر مقبولیت حاصل نہیں ہے۔
دستور ہند کی دفعہ 370 کی تنسیخ اور اس سے قبل مندر کے لئے تحریک چلا کر بی جے پی نے جو مقبولیت حاصل کی تھی اب ختم ہوتی جارہی ہے۔ صرف مبالغہ آرائی کے ذریعہ شہریوں کو ترغیب نہیں دی جاسکتی اور نہ ان کی اہمیت گھٹائی جاسکتی ہے۔ استثنائی اعتبار سے طرز حکمرانی کا مرکزی نظریہ کوئی جواز نہیں رکھتا اور ہر چیز کو اکثریت کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس اکثریتی نقطہ نظر کے لئے لازمی طور پر مزید ادارہ جاتی حکمرانی کی ضرورت ہے لیکن جب کوئی حکومت اکثریت کی تائید کا جواز پیش نہیں کرسکتی تو عوامی برہمی بڑھتی جاتی ہے اس لئے مودی حکومت کو چاہئے کہ نئے زرعی قوانین سے دستبرداری اختیار کرلے تاکہ اس کی مقبولیت برقرار ہے۔
اکثریتی طرز حکمرانی اپنے انتہائی عروج پر پہنچ چکی ہے اور اب اس کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کے بیانات اور دعوے اب عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہیں اور نہ موجودہ صورتحال کے مطابق ہیں۔ ایک انتشار اور تشدد کا عالم ہے اس میں اور اضافہ ہو سکتا ہے لیکن یہ تبصرہ امکانات میں سے صرف ایک امکان کو پیش کررہا ہے لیکن اس کے برعکس تاثر بھی دیانتداری کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔