نئی دہلی۔2 نومبر (یو این آئی) مکئی کی درآمد کے سلسلے میں امریکہ کی طرف سے دباؤ کے باوجود ہندوستان اپنے کسانوں کے حق میں مضبوطی سے کھڑا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی اور تجارت و صنعت کے وزیر پیوش گوئل دونوں واضح کر چکے ہیں کہ ہندوستانی کسانوں کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے خاص طور پر زرعی پیداوار کے ہندوستانی بازار کو کھولنے کا مسئلہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔
حال ہی میں امریکی وزیرِتجارت ہاورڈ لٹنک نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہندوستان کے رویے پر ناراضگی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا، ”ہندوستان کہتا ہے کہ اس کی آبادی 1.4 ارب (140 کروڑ) ہے ، تو کیا یہ 140 کروڑ لوگ امریکہ کا ایک بُشَل (تقریباً 25 کلو) مکئی بھی نہیں خرید سکتے ؟ وہ ہمیں اپنی چیزیں بیچتے ہیں، لیکن ہمارے سامان پر زیادہ درآمدی محصول لگا دیتے ہیں – کیا یہ مناسب ہے ؟” امریکی وزیر لٹنک کی مایوسی کے پیچھے دو اہم وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس بار امریکہ میں مکئی کی ریکارڈ توڑ پیداوار ہوئی ہے اور دوسری یہ کہ چین نے مکئی کی درآمد میں نمایاں کمی کر دی ہے ۔ امریکی محکمۂ زراعت (یو ایس ڈی اے ) نے گزشتہ اگست میں اطلاع دی تھی کہ 1866 کے بعد 2025-26 میں وہاں مکئی کی پیداوار 16.7 ارب بُشَل تک پہنچنے کا امکان ہے ، جو ایک نیا ریکارڈ ہوگا۔ امریکی مکئی کا سب سے بڑا خریدار چین ہے ، لیکن اس نے مکئی کی خرید میں بڑی کمی کر دی ہے ۔ چین پہلے امریکی سویا بین کا بھی بڑا درآمد کنندہ تھا، مگر گزشتہ چند برسوں میں اس نے امریکہ سے سویا بین کی درآمد گھٹا دی۔ پچھلے سال امریکہ کی کل سویا بین برآمدات کا تقریباً 45 فیصد چین نے خریدا تھا، لیکن اس سال اب تک کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی کسانوں نے سویا بین کے بجائے مکئی کی کاشت بڑھا دی ہے ۔ اب مکئی کی زیادہ پیداوار امریکہ کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے ۔ برآمد کم ہونے سے وہاں مکئی کی قیمتیں گرنے لگی ہیں اور گودام مکئی سے بھر گئے ہیں۔ اس میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب 30 نومبر کو صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشیابحر الکاہل اقتصدای تعاون (ایپک) سربراہ اجلاس کے دوران علیحدہ ملاقات میں اس پر اتفاق ہوا کہ چین امریکی زرعی مصنوعات کی درآمد دوبارہ شروع کرے گا۔ مگر یہ کب سے شروع ہوگی، یہ ابھی مستقبل کی بات ہے ۔ ایسے میں امریکی حکومت نے ہندوستان جیسے بڑے بازاروں پر نظریں جما رکھی ہیں۔