محکمہ تعلیم کی وضاحت کے باوجود فیس ادائیگی اور کتب کی خریدی کیلئے اولیائے طلبہ پر دباو
حیدرآباد۔19جولائی (سیاست نیوز) ریاست میں اسکولوں کی کشادگی کے معاملہ پر محکمہ تعلیم نے یہ واضح کردیا کہ حکومت نے کسی بھی تعلیمی ادارہ کو آن لائن تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے اور نہ تعلیمی سال کا آغاز کیا گیا ہے اسی لئے ایسا کرنا غیر قانونی ہے اور اس کیلئے فیس کی وصولی پر شکایت درج کروانے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی جانب سے محکمہ تعلیم کے جائزہ اجلاس کے دوران اسکولی تعلیم کے سلسلہ میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے اس کے باوجود شہر کے علاوہ ریاست کے دیگر شہری اضلاع میں اسکول انتظامیہ کی جانب سے آن لائن کلاسس کا اہتمام کیا جارہا ہے اور کئی اسکول اس کیلئے کوئی فیس نہیں لے رہے ہیں بلکہ طلبہ کو تعلیم سے جوڑے رکھنے کلاسس کے اہتمام کا حوالہ دیا جارہا ہے ۔ خانگی و کارپوریٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے کلاسس میں فیس کی وصولی کا تذکرہ نہ کے برابر ہے لیکن بعض سرکردہ تعلیمی ادارو ںکی جانب سے اس کیلئے بھی بھاری فیس کے علاوہ طلبہ کو یونیفارم اور درسی کتب خریدنے دباؤ ڈالا جانے لگا ہے جو غیر قانونی ہے۔ ریاست میں اسکولی طلبہ کیلئے تعلیمی سال کے سلسلہ میں کوئی وضاحت نہ کئے جانے کے متعلق اسکول انتظامیہ کاکہنا ہے کہ جب حکومت سے اجازت ملے گی اسی وقت کلاسس کا آغاز کیا جاسکے گا لیکن اگر اس سے قبل کلاس شروع کی جاتی ہے تو وہ غیر قانونی ہے۔ محکمہ تعلیم کے رہنمایانہ خطوط کے مطابق اسکولوں میں دفاتر کھولنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور اسکولوں میں برسر خدمت اساتذہ یا دیگر عملہ کو خدمات کیلئے طلب کرنا بالخصوص فیس کی وصولی اور کتب کی فروخت کے علاوہ یونیفارم کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے لیکن کئی اسکولوں کے دفاتر کام کر رہے ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے اساتذہ کو دیگر امور کی انجام دہی کیلئے اسکول طلب کیا جارہا اور اساتذہ کی جانب سے سرکاری احکام کا حوالہ دئیے جانے پر کہا جا رہاہے کہ اگر وہ فیس وصول کرنے اسکول نہیں آئیں تو انتظامیہ ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کے موقف میں نہیں ہے۔ محکمہ تعلیم کو ان امور کو باقاعدہ بنانے کی ضرورت ہے۔