عوام کے مفاد پر چند افراد کو ترجیح دینا ہرگز درست نہیں، بی آر ایس کو غلطیاں درست کرنے کی ضرورت
l مسلسل صبر و تحمل کے بعد عوام کے سامنے دل کی بات رکھنی پڑی l استعفیٰ کی منظوری میں تاخیر کانگریس کی سیاست کا حصہ
l عوام کی خواہش کے مطابق مستقبل کا فیصلہ کریں گی l لندن میں بتکماں تقریب کے بعد صدر تلنگانہ جاگروتی کا اظہارِ خیال
نظام آباد۔30 ستمبر ۔ ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) تلنگانہ جاگروتی صدر کے کویتا نے واضح کیا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی بھی قومی جماعت نہیں ہے اور کوئی بھی قومی سیاست میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں ہے۔ کویتا نے کہا کہ گزشتہ بیس برسوں تک جہد کار کی حیثیت سے بی آر ایس کے لیے محنت کی ہے لیکن بعض افراد کے ذاتی مفادات کے سبب عوامی جدوجہد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لندن میں تلنگانہ جاگروتی یوکے شاخ کی جانب سے منعقدہ بتکماں تقاریب میں شرکت کے بعد خطاب کرتے ہوئے کویتا نے کہا کہ یہ جشن صرف تلنگانہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تلنگانہ شناخت کا نشان بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال انہوں نے اپنے آبائی گاؤں چنتا مڈاکا سے لندن تک منعقدہ بتکماں تقاریب میں حصہ لیا اور جہاں کہیں بھی گئیں وہاں غیر معمولی عوامی جوش وخروش دیکھنے کو ملا۔ کویتا نے کہا کہ بی آر ایس میں اختلافات پیدا نہ ہوں اسی مقصد سے وہ مسلسل صبر و تحمل سے کام لیا اور برداشت کا مظاہرہ کرتی رہیں حالانکہ پارٹی میں انہیں کئی ذلتیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بقول اسمبلی انتخابات میں ان کی شکست سے لے کر بی آر ایس کی مجموعی ناکامی تک کئی سازشیں رچائی گئیں مگر وہ خاموش رہیں تاکہ پارٹی اور عوام کو نقصان نہ پہنچے۔کویتانے کہا کہ مجبوراً انہیں اپنے دل کی بات عوام کے سامنے رکھنی پڑی کیونکہ اگر وہ خاموش رہتیں تو یہ ان کی غلطی سمجھی جاتی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بیرونِ ملک قیام کے دوران انہیں بلاوجہ سنگارینی کوئلہ مزدور سنگھم کی اعزازی صدرنشینی سے ہٹا دیا گیا۔ پارٹی نے انہیں نکالنے کے بعد انہوں نے ایم ایل سی عہدہ اور بنیادی رکنیت دونوں سے استعفیٰ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تلنگانہ کی بیٹی ہیں، پارٹی نے جب انہیں مسترد کیا تو عہدہ چھوڑ دیا، تاہم اسپیکر کی جانب سے استعفیٰ کی منظوری میں تاخیر کانگریس کی سیاست کا حصہ ہے جسے جلد عوامی دباؤ کے ذریعے منظور کروایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کی تحریک میں بے لوث قربانیاں دینے والوں میں بعض کے اندر بتدریج ذاتی مفادات غالب آگئے جو نظام کو بگاڑنے کی کوشش ہے۔ لاکھوں عوام کے مفاد پر چند افراد کا فائدہ ترجیح دینا ہرگز درست نہیں کہا جائے گا اور بی آر ایس کو چاہیے کہ وہ ان غلطیوں کو دور کرے۔ نئی پارٹی کے قیام پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا، تاہم انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر عوام کی خواہش کے مطابق فیصلہ کریں گی۔کویتانے کہا کہ جیل کی زندگی نے اُن کی سوچ بدل دی ہے اور عوامی مشکلات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہ ہر حال میں اپنے راستے پر آگے بڑھیں گی اور تلنگانہ جاگریتی کو مزید مستحکم بنائیں گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پیچھے کسی قومی جماعت کی تائید نہیں ہے، نہ ہی کسی قومی جماعت میں شامل ہوں گی۔ کانگریس کو انہوں نے ڈوبتی کشتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہی پارٹی تلنگانہ کی تقسیم اور ہزاروں شہادتوں کی ذمہ دار ہے، جبکہ بی جے پی کے ڈی این اے کو انہوں نے اپنے نظریات سے غیر مطابقت قرار دیا۔ کویتانے کہا کہ خواتین ریزرویشن کے لیے وہ خود سب سے آگے رہیں اور اب بی سی ریزرویشن کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق انتخابات میں ابھی ساڑھے تین برس باقی ہیں، آنے والے دنوں میں جو عوام کے لیے بہتر ہوگا وہی ان کی سمت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی سماجی تبدیلی صرف تلنگانہ تحریک سے ہی ممکن ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ تمام تحریک کار پھر سے ایک پلیٹ فارم پر آ کر ریاست کے مفاد میں جدوجہد کریں۔