l احتجاجی مظاہروں سے ہی ملک کو ملی انگریزوں سے آزادی، احتجاج عوام کا حق
l بمبئی ہائیکورٹ کی اورنگ آباد بنچ کا فیصلہ تلنگانہ پولیس کیلئے بھی سبق
حیدرآباد ۔ 15 فبروری (سیاست نیوز) سارے ملک میں عوام بالخصوص مسلمان اور دلت سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مرکزی و بعض ریاستی حکومتوں کی شدید مخالفت کے باوجود پُرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور آج ملک بھر میں سی اے اے جیسے سیاہ قانون کے خلاف جو احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں، اس کا کریڈٹ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء و طالبات اور بطور خاص شاہین باغ کی بہادر احتجاجی خواتین کو جاتا ہے جنہوں نے مرکزی حکومت بالخصوص وزیرداخلہ امیت شاہ اور دیگر بی جے پی قائدین کی راست یا بالراست دھمکیوں، بعض غیرسماجی عناصر کے ذریعہ گولیاں چلا کر انہیں دھمکانے اور پولیس کی جانب سے طلبہ اور خواتین کو شدید زدوکوب کئے جانے کی پرواہ نہ کی اور پرامن طور پر احتجاجی مظاہرہ جاری رکھا۔ ایک بات ضرور ہیکہ شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین نے ملک میں مودی حکومت کے سیاہ قانون کے اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سارے ہندوستان کو بتادیا کہ حکومت اور پولیس لاکھ سازشیں کرلے یا ظلم و ستم کا بازار گرم کردے احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا اور انہیں دستور کی دفعہ 14 اور 19 کے تحت حاصل حق کے استعمال سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آج سیاہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے حالانکہ محب وطن ہندوستانی دستور کے مطابق ہی ہر قدم اٹھاتا ہے۔ دوسری طرف دہلی اور اترپردیش پولیس کو فرقہ پرست پولیس کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہیکہ یہ پولیس والے مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ اور چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور وہ خاص طور پر مسلم مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کررہے ہیں۔ سیاسی عداوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کفیل خان جیسی شخصیتوں پر این ایس اے نافذ کیا جارہا ہے۔ اکثر عوام کا یہی کہنا ہیکہ 25 کروڑ مسلمانوں کے احتجاج کو کروڑہا دلتوں و قبائل کی تائید حاصل ہے لیکن افسوس کہ سپریم کورٹ اس قدر بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود کئی واقعات میں ازخود نوٹس لینے میں ناکام رہی۔ اترپردیش میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے کم از کم 23 مسلم نوجوانوں کو گولیاں مار دی جاتی ہیں لیکن کوئی عدالت اس کا ازخود نوٹ لینے سے قاصر رہتی ہے لیکن سچائی کو کبھی دبایا نہیں جاسکتا۔ بمبئی ہائیکورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے جو جسٹس ٹی وی تلوادے اور جسٹس ایم جی میولیکر پر مشتمل تھی ایسا فیصلہ سنایا جس نے فرقہ پرستوں کو مایوس کردیا اور اپنے حق کیلئے احتجاج کرنے والے محب وطن ہندوستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑادی۔ اس بنچ نے 45 سالہ افتخار شیخ کی اس درخواست پر فیصلہ سنایا جس میں انہوں نے سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا کیونکہ بیٹر مہاراشٹرا کے رہنے والے شیخ کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور پولیس نے احتجاجی دھرنا منظم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ججس نے اپنے فیصلہ میں جو ریمارکس کئے وہ سی اے اے کے خلاف احتجاج سے عوام کو روکنے والوں کے چہروں پر زوردار طمانچہ ہے۔ ججس کا کہنا تھاکہ جو لوگ ایک نئے قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہیں انہیں کسی بھی طرح قوم دشمن اور غدار نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی کسی قانون کی مخالفت کرتا ہے اس کے خلاف احتجاج منظم کرتا ہے تو اس بنیاد پر اسے غدار اور ملک دشمن نہیں کہا جاسکتا۔ ججس نے جو اہم باتیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی بھی ان کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے حاصل ہوئی۔ عوام کو دستور کی دفعہ 14 اور 19 کے تحت اظہارخیال اور اپنے بنیادی حقوق کے استعمال کی آزادی حاصل ہے۔ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں دستور نے ہمیں قانون کی حکمرانی دی ہے اکثریت کی حکمرانی نہیں۔ دوسری طرف کرناٹک میں بھی عدالت نے 144 کے استعمال کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ بہرحال اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ حیدرآباد میں کے سی آر حکومت اور پولیس کیوں عوام کے احتجاجی مظاہروں سے گھبرا رہی ہے۔ کم از کم اسے بمبئی ہائیکورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے فیصلہ سے سبق سیکھنا چاہئے۔