کس کو معلوم نہیں آپ کی نیت کیا ہے

,

   

مرکزی بجٹ … امید بھی خوف بھی
مساجد نشانہ پر … اپوزیشن خاموش کیوں؟

رشیدالدین
بجٹ کا نام لیتے ہی سماج کا ہر طبقہ خوش فہمی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ ہر کسی کو اپنی بھلائی اور رعایتوں کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی گنجائش اور ضرورت کے بارے میں اچھے دن کا خواب دیکھنے لگتا ہے ۔ نریندر مودی نے گزشتہ 10 برسوں میں اچھے دن کے بارے میں صرف خواب دکھائے اور کسی بھی ایک سال کے مرکزی بجٹ میں غریب اور متوسط طبقات کے حق میں کوئی اعلانات نہیں تھے ۔ انسان بنیادی طور پر آشاوادی ہوتا ہے اور ہر سال وہ گزشتہ سال کے مقابلہ بہتری کی امید وابستہ کرلیتا ہے ۔ متوسط طبقات کو خاص طور پر بجٹ کا بے چینی سے انتظار ہوتا ہے ، انہیں امید ہوتی ہے کہ بجٹ ان کے گھر کے بجٹ کو سدھارنے کا کام کرے گا۔ مرکزی بجٹ دراصل ملک کی معاشی صورتحال کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہندوستان عالمی طاقتوں اور اداروں کا کس حد مقروض ہے، آمدنی کے وسائل کیا ہیں اور عوام کی بھلائی پر کتنا بجٹ خرچ کیا جاسکتا ہے ، ان تمام باتوں کا خلاصہ بجٹ میں ہوتا ہے۔ حکومت کی ترجیحات اور ان کی تکمیل کیلئے منصوبہ بندی کا بجٹ میں اظہار ہوتا ہے ۔ وہ دن کہاں گئے جب بجٹ کی پیشکشی کے ساتھ ہی ریلوے کرایوں میں کمی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوتا تھا۔ اخبارات کی سرخیاں غریب اور متوسط طبقات کو خوش کرتی تھی لیکن اب تو ہر سال صرف اضافہ کا رجحان ہے ۔ حکومت کے قرض کا بوجھ کم کرنے عام آدمی کی جیب کاٹ لی جاتی ہے۔ ٹیکس ، قیمتیں حتیٰ کہ غریبوں کے پکوان کا سامان بھی ہر سال مہنگا ہورہا ہے۔ نریندر مودی حکومت سے 10 سال کے تلخ تجربہ کے باوجود عوام کو بجٹ 2024-25 سے اچھائی کی امید ہے۔ پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن 22 جولائی سے شروع ہوگا جو 12 اگست تک جاری رہے گا۔ مالیاتی سال 2024-25 کا مکمل بجٹ 23 جولائی کو پیش کیا جائے گا۔ مودی حکومت کی تیسری میعاد کا یہ پہلا مکمل بجٹ ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل حکومت نے فروری میں عبوری بجٹ پیش کیا تھا جس میں عوام پر کوئی اضافی بوجھ عائد نہیں کیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ الیکشن سے عین قبل بوجھ عائد کرنا خطرہ سے خالی نہیں تھا ۔ لہذا جو کچھ بھی کرنا ہے ، مودی حکومت مکمل بجٹ میں کرے گی۔ گزشتہ دو بجٹ میں ٹیکس ڈھانچہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی اور امید کی جارہی ہے کہ ٹیکس سے استثنیٰٰ کی حد میں اس مرتبہ اضافہ کرتے ہوئے تنخواہ یاب افراد کو خوش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ نرملا سیتارمن کو نئی حکومت میں دوبارہ فینانس کا قلمدان دیا گیا۔ عام طور پر کسی بھی خاندان میں خواتین کو گھر کا وزیر فینانس کہا جاتا ہے کیونکہ وہی آمدنی اور خرچ کی نگرانکار ہوتی ہے۔ محدود اور مقررہ آمدنی میں کامیابی کے ساتھ گھر چلانا وزیر فینانس سے کچھ کم ذمہ داری نہیں ہے۔ پہلی بار جب نرملا سیتارمن کو فینانس کا قلمدان دیا گیا تو عوام بالخصوص غریب اور متوسط طبقات کو امید تھی کہ گھر گرہستی کی ضرورت سے واقف خاتون وزیر فینانس گھروں کے بجٹ کو آسان بنائیں گی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ نرملا سیتارمن آٹے دال کے بھاؤ سے لا تعلق ہیں۔ ایک مرد وزیر فینانس اپنی گھر والی سے مشورہ لے کر کچن کے اخراجات میں کمی کرسکتا ہے لیکن خاتون ہونے کے باوجود یہاں معاملہ الٹا ہے۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ وزیر فینانس کے شوہر نامدار خود اپنی اہلیہ کی صلاحیت کے قائل نہیں۔ دونوں میں سیاسی طور پر نظریاتی اختلاف ہے تو دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی بھی گھر والی سے دور ہیں۔ انہیں گھریلو ضرورتوں کا کوئی اندازہ نہیں۔ وزیراعظم اور وزیر فینانس اپنی گھریلو ضرورتوں سے نابلد ہیں ، ایسے میں غربت اور غریبی کا احساس انہیں کیسے ہوگا۔ دونوں کو محض عہدیداروں پر انحصار کرتے ہوئے بجٹ پیش کرنا ہے۔ ہمدردی اور مروت کا راست تعلق احساس سے ہوتا ہے۔ 10 برسوں میں ہمیشہ صنعتی گھرانوں اور سرمایہ داروں کے مفادات کی تکمیل کی گئی ۔ لاکھوں کروڑ کے قرض عوام کے نہیں بلکہ صنعت کاروں کے معاف کئے گئے۔ اس کے بدلہ عام آدمی کو سرکاری اسکیمات کی سبسیڈی میں کمی کردی گئی ۔ حکومت غریبوں کی نہیں بلکہ کارپوریٹ شعبہ کے مفادات کی تکمیل کیلئے ہے۔ بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لانے کا وعدہ تھا لیکن ہزاروں کروڑ لوٹ کر ملک سے فرار ہونے والے صنعت کاروں میں ایک کو بھی وطن واپس لانے میں مودی حکومت کو کامیابی نہیں ملی ۔
نرملا سیتارمن کے بجٹ کے بارے میں سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ لوک سبھا نتائج کا اثر بجٹ پر دیکھا جائے گا ۔ جس طرح عوام کو بجٹ سے امید ہے ، اسی طرح این ڈی اے کی حلیف جماعتوں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں کا ایجنڈہ پیش کیا ہے۔ ایک طرف عوام تو دوسری طرف حلیف جماعتوں کو خوش کرنا نریندر مودی حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ مبصرین کے مطابق لوک سبھا میں بی جے پی کو اکثریت سے محرومی نے عام آدمی کی توقعات میں اضافہ کردیا ہے۔ گزشتہ دو میعادوں کی طرح اگر بی جے پی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دیتی تو پھر حلیف جماعتوں اور عوام کی رائے اور ان کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات نریندر مودی کو یہ سوچنے پر مجبور کرچکے ہیں کہ 10 سالہ حکمرانی سے عوام ناراض ہیں جس کا اظہار لوک سبھا نتائج سے ہوا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ حکومت تیسری میعاد کے پہلے بجٹ میں عوام کے لئے بعض رعایتوں کا اعلان کرے گی۔ چاہے آنے والے دنوں میں ان سے دستبرداری اختیار کیوں نہ کرلی جائے۔ مرکزی بجٹ کے بارے میں عام آدمی ایک طرف پر امید ہے تو دوسری طرف اندیشے اور خوف کا شکار ہے۔ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں تلگو دیشم اور جنتا دل یونائٹیڈ نے بجٹ سے قبل وزیراعظم کو اپنا ایجنڈہ پیش کردیا ہے۔ دونوں ریاستوں کو خصوصی موقف کا درجہ دینے کی مانگ کی جارہی ہے لیکن چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار نے اس مطالبہ پر اصرار کرنے کے بجائے خصوصی ترقیاتی فنڈس کی مانگ کی ہے۔ بی جے پی کو اپنی حلیف جماعتوں کا خیال کرنے کے علاوہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی ضرورتوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ بجٹ کے بارے میں اگرچہ ہر طبقہ پرامید ہے لیکن مسلمانوں کے لئے کسی بھی امید کی گنجائش نہیں ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں میں اقلیتی بہبود کیلئے برائے نام بجٹ مختص کیا گیا اور اسے مکمل خرچ بھی نہیں کیا گیا۔ مودی حکومت کی دوسری میعاد سے کابینہ میں مسلم وزیر نہیں ہے۔ مختار عباس نقوی کی راجیہ سبھا کی رکنیت ختم ہوتے ہی انہیں گوشہ نشینی اختیار کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ۔ ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ مودی حکومت کا یہ رویہ باعث حیرت اس لئے بھی نہیں ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں خود وزیراعظم نے عوامی اسٹیج سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا کام کیا۔ جب حکمراں کے دل میں کسی مذہب کے بارے میں نفرت ہو تو پھر اس سے بھلائی کی امید کرنا فضول ہے۔ مودی حکومت نے اقلیتوں کو تعلیمی میدان میں مزید پسماندہ بنانے کیلئے اسکالرشپ اسکیم ختم کردی ہے ۔ ویسے بھی ملک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص اور ان کی عبادت گاہیں خطرہ میں ہیں۔ لوک سبھا چناؤ میں اکثریت سے محرومی کے بعد امید کی جارہی تھی کہ مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ ختم ہوگا لیکن جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں نے کئی ریاستوں میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ جاری رکھا ہے ۔ ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن مہاراشٹرا کے کولہا پور میں تاریخی مسجد پر حملہ کے ذریعہ 6 ڈسمبر 1992 کی یاد تازہ کردی گئی۔ دراصل سنگھ پریوار ملک میں ایک اور 6 ڈسمبر کے تجربہ کو دہرانا چاہتا ہے تاکہ ہندو ووٹ متحد ہوجائیں۔ کولہا پور میں جس طرح مسجد کو نشانہ بناتے ہوئے مقدس کتابوں کی بے حرمتی کی گئی اس پر حکومت نے برائے نام کارروائی کی ہے۔ دنیا بھر میں سوشیل میڈیا پر مسجد پر حملہ اور گنبدوں کو نشانہ بنانے کا ویڈیو وائرل ہوا لیکن مہاراشٹرا حکومت کے کسی وزیر کو توفیق نہیں ہوئی کہ مسجد کا معائنہ کرتے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ملک میں مسلمانوں پر مظالم اور عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات پر انڈیا الائنس کی پارٹیاں خاموش ہیں۔ لوک سبھا چناؤ میں سیکولر پارٹیوں کی عزت بچانے کا کام مسلمانوں نے کیا۔ مسلمانوں کی متحدہ تائید کے نتیجہ میں نہ صرف کانگریس بلکہ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی نے شاندار مظاہرہ کیا۔ مہاراشٹرا میں شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کانگریس زیر قیادت اتحاد میں شامل ہیں لیکن کولہا پور کے واقعات پر ان پارٹیوں کی خاموشی نے مسلمانوں کو مایوس کردیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیکولر پارٹیوں کو مسلم ووٹ تو چاہئے لیکن جب ان پر کوئی مصیبت آن پڑے تب کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اپوزیشن پارٹیوں کو مسلمانوں کا نام لینے اور ان کے مسائل پیش کرنے میں شائد شرم محسوس ہورہی ہے ۔ انہیں ابھی بھی اس بات کا خوف ہے کہ مسلمانوں سے ہمدردی کی صورت میں ہندو ووٹ دور ہوجائیں گے۔وسیم بریلوی نے حالات کی ترجمانی کچھ یوں کی ہے ؎
ہم بتائیں تو بتانے کی ضرورت کیا ہے
کس کو معلوم نہیں آپ کی نیت کیا ہے