اپوروا آنند
وادیٔ کشمیر میں حالیہ عرصہ کے دوران جو کچھ ہوا ، اس بارے میں مختلف گوشوں نے مختلف رائے کا اظہار کیا، تاہم اکثر یہ فراموش کرگئے کہ سرینگر کی مساجد سے مسلمانوں سے یہ اپیلیں کی گئیں کہ وہ سکھوں اور کشمیری پنڈتوں کے ساتھ اظہار یگانگت کریں۔ ان کے ساتھ ٹھہریں۔ یہ اپیلیں دراصل ایک ممتاز کشمیری پنڈت کیمسٹ مکھن لال بندرو، ایک بہاری مزدور، ایک سکھ پرنسپل اور ایک ہندو ٹیچر کے قتل کے بعد جاری کی گئیں۔ بہاری مزدور اور سکھ ٹیچر کی آخری رسومات میں مسلمانوں نے شرکت نہیں کی جسے خاص طور پر نوٹ کیا گیا۔ وادی میں اقلیتوں کے تئیں ہمدردی کا فقدان پائے جانے کی شکایتیں کی جارہی ہیں، ان حالات میں دہشت گردوں کے جو ناپاک عزائم ہیں، خاص طور پر کشمیر میں لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش اسے ہرگز کامیاب ہونے نہیں دینا چاہئے۔ دوسری طرف چنار کاپس کے جی او سی لیفٹننٹ ڈی پی پانڈے کا کہنا ہے کہ بعض عناصر وادی کے لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں عوام کو چاہئے کہ اس قسم کے عناصر کو بے نقاب کرکے رکھ دیں۔ ان کا بیان ایک ایسا بیان ہے، جس سے کشمیر میں پائے جانے والے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ لیفٹننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے عناصر گزشتہ ایک سال کے دوران ملک اور مرکزی زیرانتظام علاقہ میں آئی مثبت تبدیلیوں اور ترقی کے باعث حسد میں مبتلا ہیں۔ اگرچہ لیفٹننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے اس طرح کا بیان دیا ہے لیکن کوئی بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر کیوں سپاہی سیاسی ترجمان بن گئے ہیں۔ یقینا انہوں نے مثبت تبدیلیوں اور ترقی کی بات تو کی لیکن وہ مثبت تبدیلیاں اور ترقی کیا ہیں، اس بارے میں تفصیلی روشنی نہیں ڈالی۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے ذہن میں حالیہ عرصہ کے دوران لکھیم پور کھیری، اندور یا پھر کاوردھا میں پیش آئے واقعات نہیں ہوں گے۔ چلئے! لیفٹننٹ جنرل کو چھوڑیئے، دوسرے لوگ بھی دہشت گردی کے فرقہ وارانہ موڑ اختیار کرجانے کو لے کر تشویش میں مبتلا ہے، کیونکہ جب تک دہشت گرد صرف مسلمانوں کو قتل کرتے رہے، کسی نے بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا کیونکہ مسلمان، مسلمان کو مار رہے تھے، مسلمانوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہورہا تھا۔ اب مذکورہ واقعات کے بعد ایک تنظیم منظر عام پر آئی اور اس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ مکھن لال بندرو کو اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ آر ایس ایس کا جاسوس تھا۔ یہ ایک عجیب و غریب اور توہین آمیز الزام ہے۔ نہ صرف ان کی بیٹی اور بیٹے نے بلکہ بندرو کے جاننے والے دوسروں لوگوں نے ان الزامات کی تردید کی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر وہ آر ایس ایس سے تعلق بھی رکھتے تھے تب بھی ان کے قتل کو منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بندرو کے ایک بیٹے نے ایک سوال پوچھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قومی میڈیا میں اُس سوال کو بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا گیا۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ کچھ وقت سے اس بات کی اطلاعات مل رہی تھیں کہ بندرو پر حملہ کیا جاسکتا ہے، اس کے باوجود ریاست نے انہیں سکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی؟ بندرو کے بیٹے کا یہ بھی سوال تھا کہ کیا حکومت ان کے والد کی زندگی بچانے یا ان کے تحفظ میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی؟
اس قسم کے قتلوں کے پیچھے جو سچائی ہے، اسے کشمیر میں غیرنشان زدہ قبر میں گہرائی تک دفن کردیا گیا ہے لیکن ایک اور بات یہ ہے کہ ہم انڈین سکیورٹی فورسیس کے ہاتھوں قتل کئے گئے لوگوں اور ان کے قتل کے بارے میں نہیں جانتے۔ انہیں مختلف بہانے استعمال کرتے ہوئے قتل کیا گیا۔ ویسے بھی مسلمانوں کیلئے کسی سرکاری حکم کی نافرمانی یا کسی ہندوستانی عہدیدار کے ساتھ بحث ہلاکت خیز ثابت ہوسکتی ہے۔ وادیٔ کشمیر میں نوجوان ہمیشہ شک کے دائرے میں ہوتے ہیں اور یہ شکوک و شبہات ان کے وجود کو مٹانے یا ان کے قتل کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان قتلوں کے بعد ایک مسلم کشمیری پرویز کو ہندوستانی سکیورٹی فورسیس نے مبینہ طور پر گولی مار دی۔ مسلمانوں نے کشمیری پنڈت اور سکھوں کے قتل پر سوگ منایا لیکن جب وہ مارے جاتے ہیں تو کوئی سوگ نہیں مناتے بلکہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے اور میڈیا بھی ان کی طویل خاموشی کے بارے میں سوال نہیں کرتا۔ صرف یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب کشمیری مسلمانوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے، ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور ہر روز ان کی ہتک کی جاتی ہے اور یہاں تک کہ انڈین اسٹیٹ نے انہیں خاموش کردیا۔ ان حالات میں کشمیریوں کو انسانیت کی ایک چھوٹی سی آواز کا حاصل کرنا ضروری ہوگیا۔ ایسی آواز جسے بالکل دبا دیا گیا، لیکن آواز تو اٹھانی ضروری ہے۔ جہاں تک غم کا سوال ہے، اُن لوگوں کا بھی غم منانا چاہئے جسے آپ پسند نہیں کرتے، کیونکہ قتل ایک سانحہ ہے۔ اب چلتے ہیں اس سوال پر جو کشمیریوں پر مظالم یا ان کے ساتھ روا رکھے جارہے سلوک کے بارے میں آواز اٹھانے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں ہم تمام کو ایک ایسی زبان پانے کی جدوجہد کرنی چاہئے جو کشمیریوں کے بارے میں دیانت داری کے ساتھ بات کرے۔
جب مجھے کشمیر میں ایک سکھ اور ایک ہندو ٹیچر کے قتل کے بارے میں معلوم ہوا تو میرا ذہن اپنے اس طالب علم کی جانب گیا جو وادی میں کہیں ایک اسکول میں پڑھا رہا ہے۔ وہ ہندو ہے اور پچھلے دو برسوں سے کشمیری عوام کے ساتھ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے، اُسے اس پر بہت دُکھ ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جارہے سلوک کو لے کر اس میں غصہ پایا جاتا ہے۔ میں نے اس کی آواز سنی ہے جس سے اس کے بے بس ہونے کا احساس ہوسکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے کشمیری طلبہ کو کس طرح چیلنجس درپیش ہیں، خاص طور پر آن لائن کلاسیس کے معاملے میں کشمیری طلبہ کو کئی ایک چیلنجس کا سامنا ہے۔ میرے اس طالبہ علم کو اپنے کشمیری طلبہ کی کافی فکر ہے، خاص طور پر اسے اس وقت بہت تکلیف ہوئی ہے، جب وادی میں کشمیر کو حاصل خصوصی موقف ختم کردیا گیا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی عمل میں لائی گئی اور اس کے بعد وادی میں طویل مدت تک انٹرنیٹ بند کردیا گیا، اس دوران طلبہ کا کافی نقصان ہوا، تب اس نے یہ حقیقت جانی کہ اسے لوگوں کو جاننے اور ان کی تہذیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بہتر انداز میں پڑھاسکے۔
اب ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کے ہندوستانی مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہوں۔اگرچہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت ، کشمیری مسلمانوں سے فاصلہ بنائے ہوئے ہے، لیکن کشمیری پنڈتوں کا نام لیتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد کو منصفانہ قرار دیا جائے گا۔ جب کبھی ایک اخلاق یا جنید کا قتل کیا جاتا ہے، تب ان جرائم کی اہمیت کشمیری پنڈتوں کیخلاف تشدد کے بارے میں بات کرتے ہوئے گھٹا دی جاتی ہے۔ ایسے میں وادی کشمیر میں غیرمسلموں کو نشانہ بنانا ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد کے خطرات بڑھا دیتا ہے یا پھر ان واقعات کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کو منصفانہ قرار دینے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا کشمیر کی آواز کو ہندوستان میں سنا جارہا ہے؟ کیونکہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ تشدد کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہاں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ جب آپ کی شناخت یا تشخص کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے ، قانونی طور پر تو آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک تشدد ہے۔ ایک امر یہ بھی ہے کہ قتل کے واقعات کی مذمت کرنا آسان ہے بہ نسبت ان لوگوں کیساتھ ہمدردی کے جو زندہ نعشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ بہرحال تمام تر منفی حالات کے باوجود کشمیریوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ زندہ ہیں۔