پروفیسر اپوروانند
جموں و کشمیر پولیس نے اُن میڈیا رپورٹس کی تردید کی، جس میں بتایا گیا تھا کہ گذشتہ ہفتہ قومی ترانہ کا احترام نہ کرنے کی پاداش میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ بتایا گیا ہیکہ ریاست میں ایک پروگرام کے دوران جب قومی ترانہ گایا گیا اس وقت کچھ لوگ اٹھ کھڑے نہیں ہوئے بلکہ اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ یہ بہت عجیب بات ہیکہ یہ واقعہ دراصل Pedal of Peace پروگرام کی اختتامی تقریب میں پیش آیا اور ان گرفتاریوں کے ساتھ اس کا اختتام عمل میں آیا۔ کشمیر میں ایسا لگتا ہیکہ ’امن‘، ہمیشہ آزادی سے محرومی اور آزادی کو نقصان سے جڑا رہتا ہے اور اسی طرح اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ جموں و کشمیر میں کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہی رہتا ہے۔ وہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی دن امن کے ساتھ گذر جائے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی تنازعہ پیدا کیا جاتا ہے یا پیدا ہوتا ہے۔ اس معاملہ کو جس چیز نے سنگین بتایا وہ یہ ہیکہ لیفٹننٹ گورنر اس تقریب میں موجود تھے اور ان کی موجودگی میں ہی جنا گنا منا گایا جارہا تھا۔ جب میڈیا نے یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا کہ ’’جنا گنا منا‘‘ پڑھے جانے کے دوران احتراماً کھڑے نہ ہونے پر کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے تب جموں و کشمیر پولیس نے وضاحت کی کہ کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ 12 افراد کو پابند کیا گیا کہ مستقبل میں اس قسم کی حرکت نہ کریں۔ پولیس کی وضاحت کے منعی و مطالب کو ایک طرف رکھیں پولیس کارروائی کا مطلب جیل ہے۔ جنا گنا منا گانے کے دوران جو لوگ اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے انہیں سات دن کی پولیس تحویل میں بھیجا گیا۔ اس طرح پولیس نے انہیں انتباہ دے دیا کہ وہ مستقبل میں ایسا رویہ اختیار نہ کریں ان کو جیل بھیجنے کے حکم میں واضح طور پر کہا گیا کہ مستقبل میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہیکہ وہ لوگ لا اینڈ آرڈر میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔ آج وہ قومی ترانہ کے دوران بطور احترام کھڑے ہونے سے گریز کرتے ہیں تو کوئی بھی یہ تصور کرسکتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کچھ نہیں کرسکتے۔ اس حکم کو پڑھتے ہوئے مجھے دارالحکومت دہلی میں سال 2016ء کو پیش آیا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ہوا یوں کہ پولیس چند نوجوانوں کو گرفتار کرکے پارلیمنٹ اسٹریٹ پولیس اسٹیشن لے آئی۔ راقم الحروف نے جب دریافت کیا کہ آخر ان کا کیا قصور ہے؟ ان لوگوں نے کس غلطی کا ارتکاب کیا۔ تب اسٹیشن ہاؤز آفیسر HSO نے مجھے بتایا کہ جس عہدیدار نے انہیں گرفتار کیا اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جے این یو طرز کے دکھائی دیئے اور جے این یو طرز کے لوگوں کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت دی جائے تو بظاہر اس سے امن کو خطرہ ہوگا۔ اسی لئے پولیس نے ان نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ جب میں نے ایس ایچ او سے ان گرفتار شدگان کو رہا کرنے کی درخواست کی کیونکہ ان لوگوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی پاداش میں انہیں گرفتارکیا جائے تب اس نے کہا کہ ان کی تلاشی لی جائے گی۔ تلاشی کے دوران ایک نوجوانوں کے بیاگ سے اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کا پرچم برآمد ہوا۔ تب ایس ایچ او نے بڑی حیرت اور خوف میں کہا ’’آپ ایک ایسے شخص کو رہا کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ جواب میں راقم نے ایس ایچ او سے دریافت کیا کہ اس پرچم پر کیا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟ تب اس کا کہنا تھا کہ اس کیلئے یہ بہت آسان ہے بلکہ کچھ بھی نہیں آج وہ ایس ایف آئی کا فلیگ لئے جارہا ہے کل وہ اپنے بیاگ میں ریوالور لے جائے گا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کون ہے جو اس طرح کے پولیس آفیسر سے بات کرے؟ بہرحال جموں و کشمیر کی پولیس بھی دہلی پولیس کے اسی SHO کی طرح ہے وہ کہتی ہیکہ قومی ترانہ گانے کے دوران بیٹھے رہنے والے یقیناً مستقبل میں مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ یقیناً جموں و کشمیر پولیس نے احتیاط برتتے ہوئے برسرعام یہ بات نہیں کہی ہے کیونکہ 2021ء میں جموں و کشمیر ہائیکورٹ نے 2018ء میں کسی کے خلاف اس طرح کے مقدمہ میں درج ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیا تھا۔ ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ قومی ترانہ پڑھے جانے کے دوران کہ اپنی نشست پر بیٹھے رہنا جرم نہیں ہے آپ اسے قومی ترانہ کی تحقیر کہہ سکتے ہیں لیکن یہ ایک جرم نہیں ہے۔ اگرچہ عدالت نے اس مسئلہ کو قانونی طور پر حل کیا لیکن وہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی شخص کو کسی کا احترام کرنے یا کچھ ایسا کرنے پر مجبور کیسے کیا جاسکتا ہے جو فوری طور پر اس کے جذبات و احساسات کی ترجمانی نہیں کرتا۔
جہاں تک احترام کا سوال ہے اس کیلئے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہئے۔ احترام تو دل سے ہوتا ہے۔ آپ ایک شخص کو وہپ یا تلوار دکھا کر کھڑے کرسکتے ہیں لیکن اس کے دل میں احترام پیدا نہیں کرسکتے اس لئے اس طریقہ سے اس شخص کے دل میں آپ کیلئے نفرت و عداوت پیدا ہوگی۔ آپ کی تحقیر کا جذبہ جنم لے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آمریت کی راہ پر گامزن امر حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو اس سادہ سی بات کی سمجھ نہیں ہے بلکہ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ وہاں ایسے لوگ موجود رہیں جن کو ان سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ آئیے قانونی پہلو کو ایک طرف رکھ کر اصل مسئلہ پر بات کرتے ہیں۔ ہم یہ کیسے تصور کرسکتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے لوگ سرکاری ہندوستان کی کسی علامت کے تئیں پیار و احترام کریں گے جبکہ ان کے اذہان و قلوب میں قید اور جبر کے جذبات و احساس پائے جائیں۔ اس بارے میں خوف پایا جائے۔ دفعہ 370 کو منسوخ کئے جانے کے ذلت آمیز فیصلہ کے ذریعہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرکے اسے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنے اور پھر اس کے بعد سے شروع ہونے والے عام ظلم و جبر کے بعد جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ عام کشمیریوں کے اذہان و قلوب میں بھارت اور بھارتی شہریوں کیلئے کوئی جگہ ہوگی وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ کشمیریوں نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہیکہ اپنے آپ کو فخر سے بھارتی کہنے والے کشمیری لیڈروں کے ساتھ انڈین اسٹیٹ نے کیا سلوک روا رکھا ان کے ساتھ انتہائی ہولناک سلوک کیا گیا۔ بھارتی ریاست اور سب سے زیادہ ہندوستانی سیاسی جماعتوں نے ثابت کیا ہیکہ وہ کشمیر کو صرف اور صرف زمین اور باغات کے طور پر دیکھتے ہیں، وسائل کے طور پر دیکھتے ہیں یعنی ان کی نظریں کشمیر کے وسائل پر ہوتی ہیں۔ بے زمین افراد کو زمینات دینے سے متعلق حکومت کی حالیہ اسکیم کو کشمیری عوام کشمیر کی آبادی کی ہیئت تبدیل کرنے کے عزائم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس طرح حال ہی میں حد بندی کی جو مشق کی گئی اس کا مقصد بھی کشمیریوں کے مفادات کے مغائر تھا۔ اس کا مقصد یہی ہیکہ جب کبھی اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو اقتدار میں شراکت کیلئے مسلمانوں کی جو آواز اٹھتی ہے اس آواز اٹھنے کے امکان کو ختم کریا جائے۔ اسی مقصد کی تکمیل کیلئے کی گئی یہ کوشش ہے۔ حدبندی کے ذریعہ دراصل کشمیر میں مسلمانوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کشمیر میں سب کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ لب بند ہیں کوئی بھی مقامی اخبار حقیقی خبر نہیں دے سکتا اور کسی کو بھی آزادانہ رائے دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سجادگل اور فہد شاہ کی گرفتاری، پریس کلب پر قبضہ اور اس سے قبل کشمیر ٹائمز کو غیر کارکرد کرنے جیسی کارروائیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ تو کیا اس میں کوئی حیرت کی بات ہے کہ آج کشمیریوں اور انڈین اسٹیٹ کے درمیان تعلقات کو کشمیری ایک جبر کے طور پر دیکھتے ہیں؟ جموں و کشمیر بھارت کا واحد خطہ ہے جہاں کے عوام پر 5 برسوں سے غیرمنتخب انتظامیہ نے حکمرانی کی۔ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ کشمیری عوام اور ان کے منتخبہ نمائندے نہیں کررہے ہیں بلکہ ایک انتظامیہ کے ذریعہ کیا جارہا ہے جس کا کنٹرول مرکز کے مقررہ لیفٹننٹ گورنر کے باغوں میں ہے جوایک جارح کی طرح سلوک روا رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ خواہش کہ کشمیری بھارت یا اس کی کسی سرکاری علامت کا احترام کریں بالکل غلط ہے۔ کشمیر کے ساتھ مرکز کا رشتہ انسانی نہیں ہے بلکہ یہ طاقتور اور کمزور کا رشتہ ہے۔ جب کمزور چیخ نہیں سکتے تب وہ خاموش رہ کر اپنا احتجاج اپنی مزاحمت درج کراتے ہیں۔ اس کے برعکس طاقتور کو اس کیلئے سزا کمزوروں کو دینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہی وجہ ہیکہ قومی ترانہ پڑھے جانے کے دوران بیٹھے رہنے والے 12 کشمیریوں کو پولیس نے جیل میں ٹھونس کر ایسے ہی اختیار کا استعمال کیا۔