کشمیریوں کے ووٹ تقسیم کرنے بی جے پی کی جان توڑ کوشش

   

پریم شنکر جھا
کشمیر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کسی نہ کسی طرح کامیابی حاصل کرنے اور حکومت بنانے کی خواہاں ہے۔ ایسے میں وادیٔ کشمیر میں مودی ۔ شاہ جوڑی کا جو کھیل ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اپوزیشن ووٹ کو تقسیم کرے۔ موجودہ حالات میں نیشنل کانفرنس ۔ کانگریس اتحاد کے لئے صرف ایک امکان باقی رہ گیا ہے کہ وہ ہر چھوٹی جماعت اور امیدوار تک پہنچے اور انھیں بتائے کہ ان انتخابات میں چاہے کوئی بھی کامیابی حاصل کرے وہ اگلی حکومت کا ایک حصہ بنے گا۔ نیشنل کانفرنس ۔ کانگریس اتحاد کے لئے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کشمیر کی حکومت کشمیری ہاتھوں میں ہی رہے۔ کسی اور کے ہاتھوں میں نہ جائے۔ آپ کو یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کشمیر کے لئے اسی طرح کی خود مختاری حاصل کرنے کا ایک موقع ہے جو اُسے دفعہ 370 کے تحت حاصل تھی۔ وادیٔ کشمیر میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی ہوچکی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وادی کی اہم سیاسی جماعتیں اس موقع کو گنوارہی ہیں۔ بی جے پی کے حکمت ساز ابتداء سے ہی اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کشمیر میں ایک نشست بھی حاصل نہیں کرسکیں گے اور پارٹی کو اگر وادی میں کہیں ٹھوس تائید و حمایت حاصل ہے تو جموں کے ایک حصہ میں موجود ہے۔ اس طرح اِسے اس مرکزی زیرانتظام علاقہ کی 90 نشستوں میں سے واضح اکثریت حاصل کرنے کا روشن امکان نہیں ہے۔ ایسے میں کشمیریوں کی زیرقیادت کشمیری سیاسی جماعتوں کے لئے ریاست کی چھینی گئی خود مختاری حاصل کرنے کا ایک حقیقی موقع ملا ہے اور جو شائد آخری موقع ہوگا۔ مودی حکومت نے دستور کی دفعہ 370 منسوخ کرکے کشمیریوں کو خود مختاری سے محروم کردیا تھا۔ نریندر مودی ۔ امیت شاہ کی جوڑی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ابتداء ہی سے ان کا مقصد کشمیریوں کے ووٹوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا اور اس تقسیم کو بی جے پی کے تقریباً 25 نشستوں کے حصول کو یقینی بنانے والے بلاک واحد بڑی جماعت بنانے کیلئے استعمال کرنا تھا۔ بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ وہ وادی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرے اور پھر تشکیل حکومت کا دعویٰ کرے اور جب ایک مرتبہ بی جے پی کو اس کی اپنی مرضی و منشاء کے مطابق حکومت بنانے کا موقع مل جائے تو وہ آزاد امیدواروں اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تعداد میں نہ صرف تخفیف کردے گی بلکہ انھیں خرید لے گی۔ چھوٹی سیاسی جماعتوں اور کامیاب آزاد امیدواروں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے لئے پبلک سیفٹی ایکٹ، یو اے پی اے، قانون انسداد منی لانڈرنگ اور ذیلی قوانین استعمال کرے گی اور وہ جموں و کشمیر اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرنے تک اس روش پر قائم رہے گی۔ چھوٹی جماعتوں اور کامیاب آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شمولیت کے لئے مجبور کرے گی اور اگر بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو اس کے پاس ’’کشمیریت‘‘ کو تباہ و برباد کرنے کے لئے مکمل 5 سال ہوں گے اور جہاں تک کشمیریت کا سوال ہے، اسلام، ہندوازم اور سکھ ازم کا یہ مرکب ہے۔ شیخ عبداللہ اور مہاراجہ کشمیر نے کشمیریت کا اُس وقت تحفظ کیا جب اُن لوگوں نے پاکستان سے کشمیر کا الحاق کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن اس کے عوض شیخ عبداللہ اور مہاراجہ کشمیر نے 1947 ء میں کشمیر کے ہندوستان سے الحاق سے متعلق معاہدہ پر دستخط سے قبل اپنی ریاست کے لئے مفادات کے تحفظ مانگا (اور پھر دستور کی دفعہ 370 نے عملاً کشمیر کو قومی موقف عطا کیا۔) بہرحال جب کشمیریوں کو ان کی حماقت کا احساس بڑی عدالت ہے اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا حکم دیتے وقت سے ان پر یہ واضح ہونا چاہئے تھا کہ اگر وہ جموں و کشمیر کی خود مختاری کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو اُنھیں ایک اتحاد کے طور پر ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے ساتھ انتخابات لڑنا ہوں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیری سیاسی قیدیوں کو سارے ملک کی جیلوں میں بناء کسی مقدمہ چلائے قید میں رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب کشمیر میں سرگرم انتخابی مہم چلانے کی بجائے راہول گاندھی نے 7 ستمبر تا 16 ستمبر امریکہ کا دورہ کیا اور وہاں باوقار تعلیمی اداروں میں ماہرین تعلیم اور طلبہ کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تارکین وطن سے خطاب کیا جبکہ انھیں کشمیر اسمبلی انتخابات پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہئے تھی۔ اس کے برعکس بی جے پی کشمیریوں کے ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بنانے میں مصروف ہے اور قدم بہ قدم وہ اس ضمن میں اور اقدامات کرتی جارہی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے اور نہ ہی انتخابی مہم کے دوران فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ نے رائے دہندوں کو آرٹیکل 370 کی برخاستگی سے کئی ماہ قبل کشمیر میں بی جے پی کی جانب سے پیدا کردہ دہشت سے متعلق بتانے سے گریز کیا اور نہ ہی ان لوگوں نے ہر کشمیری کو طویل عرصہ سے قید کے خلاف احتجاج ہی نہیں کیا۔ کشمیر میں چونکہ کشمیریوں کے خلاف سخت فضاء پیدا کی گئی اسی لئے اُسے کشمیریوں کی قید سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اس بارے میں دہلی کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر کچھ کہنے کی جرأت نہیں کی اور دہلی نے اسے مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنے سے پہلے اور بعد میں کشمیریوں پر جو انتظامیہ مسلط کیا ہے، اُس کے خلاف بھی یہ لوگ آواز اُٹھانے سے قاصر رہے۔ نیشنل کانفرنس نے اس مخصوص معنی و مفہوم کے خلاف بھی احتجاج سے اجتناب کیا جو عدالت عظمیٰ نے دستور کی دفعہ 370 کے پڑھنے کو درست ثابت کرنے اس کے ساتھ لفظ ’’عارضی‘‘ جوڑ دیا یا منسلک کردیا جبکہ ججس کے لئے یہ واضح تھا کہ یہ صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کا اطلاق صرف ایک قانون پر ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو یہ جان لینا چاہئے تھا کہ بی جے پی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کشمیر میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرسکتی اس لئے وہ کشمیریوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کی جان توڑ کوششوں میں مصروف ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے پہلے ہی پیپلز کانفرنس کو تقسیم کرکے رکھ دیا۔ اس نے مقتول کشمیری لیڈر عبدالغنی لون کے فرزند سجاد لون کو ان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے مجبور کیا۔ بی جے پی نے ایسا ہی کچھ مفتی سعید کے سابق دوست اور بزنس مین الطاف بخاری کے ساتھ بھی کیا اور انھیں انحراف اور جیل دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور کیا۔ آپ کو یہ یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ لوک سبھا انتخابات میں پارلیمانی حلقہ بارہمولہ سے انجینئر رشید منتخب ہوئے جبکہ عمر عبداللہ اور سجاد لون کا مظاہرہ انتہائی ابتر رہا۔ وہ انجینئر رشید سے مقابلہ میں بالکل ناکام رہے جس سے بی جے پی کے انتخابی حکمت ساز اس بات کے قائل ہوئے کہ کشمیر کے دیگر ریاڈیکل لیڈروں کو رہا کرتے ہوئے انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے کشمیری ووٹ کئی حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے اور اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور این سی پی اتحاد کیا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کشمیر کا اقتدار کشمیریوں کے ہاتھوں میں ہو۔