برسراقتدار این ڈی اے حکومت نے جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ ہونے کی خبروں کی تردید کی ہے اور اس طرح کی خبروں کو غلط فہمی پیدا کرنے والا کہہ کر اپنا دامن صاف دکھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن دی نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں شائع بی بی سی کی تصویروں میں دکھایا گیا ہے کہ کشمیر کا درجہ بدلے جانے کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارچ کر رہے ہیں۔ سڑکیں احتجاج کرنے والوں سے بھری ہوئی ہیں اور کچھ سڑکوں پر اینٹ اور پتھر بکھرے پڑے ہیں، جسے مظاہرین نے پھینکا ہے۔ بی بی سی اردو نے 10 اگست کو ایک ویڈیو نشر کیا جس میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے گئے ہیں۔ حکومت نے اس سے انکار کیا ہے، لیکن بی بی سی اپنی رپورٹ پر قائم ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ نے بھی مضمون نگارکی ایک رپورٹ کو پوری طرح سے غلط ٹھہرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ جمعہ کو جب سری نگر میں پابندیوں میں ڈھیل دی گئی تو 10 ہزار لوگ احتجاجی مظاہرہ کے لیے سڑک پر اتر آئے تھے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ “مضمون نگار کے توسط سے جاری یہ رپورٹ دراصل اصل ڈان میں شائع ہوئی جس میں سری نگر میں گزشتہ جمعہ کو 10 ہزار لوگوں کے احتجاجی مظاہرے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے ایک ٹوئٹ میں اس تعلق سے کہا کہ “یہ پوری طرح غلط ہے۔ سری نگر/بارہمولہ میں محض کچھ چھوٹے موٹے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں جس میں 20 سے زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔”
واضح رہے کہ نیو یارک ٹائمز نے جمعہ کو وادی کشمیر میں سینکڑوں مردوں اور خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دکھایا ہے، اور سری نگر میں ایک سڑک پوری طرح اینٹ اور پتھروں سے بھری پڑی ہے۔ جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے دکھایا ہے کہ پیر کو عید کی نماز کے بعد سڑک مظاہرین سے بھری ہوئی تھی۔