برکھا دت
سرینگر میں بیوروکریٹس اور عہدیداروںکو حکمت عملی طے کرنے سے متعلق اجلاسوں میں دہلی سے محض ایک ہدایت دی گئی کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حالات کو قابو میں رکھیں: جانوں کا اتلاف ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ حقیقت ِ حال کے مطابق یکے بعد دیگر عہدہ دار کا استدلال ہے کہ وہ اسی ترجیح کی مطابقت میں کام کررہے ہیں۔ ریاستی حکومت کے ترجمان اور پرنسپال سکریٹری روہت کنسل نے مجھے بتایا کہ اڈمنسٹریشن خاص طور پر باخبر ہے کہ وہ غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے پائے جو اس نے 2016ء میں حزب المجاہدین کے عسکریت پسند برہان وانی کا صفایا کرنے کے بعد کی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ بڑی غلطی شاید یہ فیصلہ رہا کہ برہان کی نعش کو اس کی فیملی کے حوالے کرتے ہوئے انھیں زبردست جلوس جنازہ نکالنے کی اجازت دی گئی۔ یہ ایک نئے مرحلے کا نقیب ہوتا ہے جہاں تجہیز و تکفین کے اجتماعات لغوی معنی میں عسکری گروپوں کیلئے رکروٹنگ گراؤنڈز بن جاتے ہیں۔
برہان وانی جس نے کشمیر کیلئے خلافت کے حق میں آواز اٹھائی ، اور اپنے لئے کٹرپسند نوجوان نسل میں سے حامیوں کو اکٹھا کرنے سوشل میڈیا کا استعمال کیا، اسے اس کی موت پر غیرمعمولی شخصیت بن جانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ جب سڑکوں پر احتجاج ہونے لگے تو اندرون ایک ہفتہ 37 افراد ہلاک ہوئے۔ شہر کے اسپتالوں سے پیلٹ گن کے زخموں کی تصویریں منظرعام پر آئیں۔ اور وادی میں زائد از دو ماہ تک کھلبلی مچ گئی۔
روہت کنسل نے مجھے بتایا کہ اس مرتبہ ابھی تک کوئی زندگی تلف نہیں ہوئی ہے۔ اور استدلال پیش کیا کہ نقل و حرکت اور مواصلات پر تحدیدات اگرچہ اچھی بات نہیں، لیکن اس قدر واجبی قیمت تو ادا کرنا ہوگا۔ وادیٔ کشمیر میں کرفیو والی راتیں اور فون و انٹرنٹ کی لائنس منقطع ہونا نئی بات نہیں۔ ہم فراموش کرجاتے ہیں کہ درحقیقت، برسہا برس اس ریاست میں سکیورٹی وجوہات کی بنا موبائل فونس پر پابندی عائد رہی تھی۔
اس بحث میں ترغیب بھی ہے کہ تشدد سے بچنا کسی بھی نظم و نسق کی اولین ضرورت ہونا چاہئے۔ لہٰذا، مختصر مدت میں، چاہے مکینوں کو جذباتی طور پر دکھ پہنچے، بعض پابندیوں کیلئے منطقی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک پابندی جو میرے ذہن سے نکل نہیں سکتی، اس بارے میں معنی خیز خاموشی ہے کہ اصل دھارے کے کشمیری سیاستدانوں کو کب رہا کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں انکار سے قطعیت سے انکشاف بھی ہوتا ہے کہ جانے کتنے لوگ زیرحراست ہیں؟ان اعداد و شمار کے بارے میں افواہیں گشت گرتی رہی ہیں۔ اور کوئی سرکاری وضاحت نہ ہونے کی بنا یہ تعداد 700 تا 7000 بتائی جارہی ہے۔ شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ایک عہدہ دار نے مجھے بتایا کہ گرفتاریوں کی تعداد لگ بھگ 4,000 ہے، اور کئی علحدگی پسند محروسین کو اترپردیش اور راجستھان کی جیلوں کو منتقل کردیا گیا ہے۔ تاہم، یہاں میری توجہ اصل دھارے کے سیاستدانوں پر مرکوز ہے۔ اطلاع کے غیرضروری خلاء نے قیاس آرائی کو صرف بڑھاوا ہی دیا ہے۔ اصل میں، عوام کا کہنا ہے، محض تین سابق چیف منسٹرس کو محروس نہیں کیا گیا، بلکہ گاؤں کے سرپنچوں کو تک گھیرے میں لیا گیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ شاہ فیصل جو انڈین اڈمنسٹریٹیو سرویس کے ٹاپر سے سیاستدان بننے والے شخص ہیں، ان کے علاوہ ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ کسی نے وہ احکام کے جواز کو چیلنج کیا جن کے تحت انھیں محروس کردیا گیا۔ ہر کسی کو احتیاطی حراست کے تحت ماخوذ کیا گیا۔ قانونی طور پر یہ باریک بنیاد معلوم ہوتی ہے۔ ابھی تک سپریم کورٹ میں habeas corpus petitions کا انبار لگ جانا چاہئے تھا۔ وہ ان باتوں کی تصدیق کرنے کے موقف میں نہیں ہیں کہ سرینگر میں عہدے داروں کی جانب سے سرگوشیاں ہورہی ہیں۔ فی الحال کوئی بھی بڑا سیاستدان عوام کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ انٹلیجنس عہدے داروں نے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی دونوں سے ملاقاتیں کئے اور انھیں واپس عوامی اور سیاسی زندگی میں سہل طور پر لانے کے بارے میں بات کی ہے۔ لیکن کسی نے بھی ابھی تک کچھ خاص جوش و خروش نہیں دکھایا ہے، اور اپنے جواب کیلئے مزید وقت مانگا ہے۔ آخر وہ کیا کہنے والے ہیں؟ عملی میدان میں واپسی کیلئے اُن کا سیاسی فیصلہ کیا ہوگا؟ کیا وہ خودمختاری اور خودحکمرانی اور نسلی قوم پرستی کے اپنے پہلے کے نعروں سے پیچھے ہٹ کر اُن کی جگہ ریاستی درجہ (جموں و کشمیر اب مرکزی علاقہ ہے) اور سکونتی قوانین کیلئے مہم چھیڑیں گے؟ کیا وہ اِس نئی حقیقت کو قبول کرلیں گے؟ کیا اُن کے پاس کوئی متبادل بھی ہے؟ ایک سابق ریاستی وزیر نے مجھے بتایا کہ وہ سیاست سے بالکلیہ کنارہ کشی اختیار کرلیں گے کیونکہ وہ ’’مدح کردہ میونسپل کونسلر‘‘ تک گھٹا دیئے جانا نہیں چاہتے ہیں۔ میں سرینگر میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے دفاتر کو جاتا ہوں تو گیٹس پر قفل پاتا ہوں اور کوئی شخص نظر نہیں آتا۔ چند پارٹی ورکرس دفتر کے باہر دھوپ سینکتے ہوئے سوچ میں معلوم ہوتے ہیں کہ آگے جانے کیا ہونے والا ہے۔ اُن کی پیش قیاسی ہے: اگر اصل دھارے کے سیاستدانوں کو بقاء محبوب ہو تو ان تمام کو ضرور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا۔
آرٹیکل 370 ختم ہوچکا۔ اگلے مرحلے میں دہلی کو سیاسی حکمت عملی درکار ہے۔ اور اس میں کچھ گرماگرمی کو ٹھنڈی ہونے کی اجازت دینا شامل ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی چاہتی ہے کہ جموں و کشمیر کوئی بھی دیگر ریاست کی مانند رہے۔ اس میں ضرور حق احتجاج شامل رہنا چاہئے۔ لہٰذا، اگر محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ و عمر عبداللہ، یا سجاد لون کشمیر کیلئے خصوصی درجہ سے دستبرداری کے خلاف ایجی ٹیشن کی قیادت کرنا چاہیں تو کیا ہوگا؟ کیوں اسے حسب ِ معمول کیفیت کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے جو کہ پُراعتماد، خود پر یقین رکھنے والی جمہوریت کے معاملے میں ہونا چاہئے؟ اب اس کا وقت آچکا ہے۔٭
