کشمیری پنڈتوں کی حالت ِ زار کیلئے

   

امریکہ پاکستان اور بی جے پی ذمہ دار

رام پنیانی
وادی ٔ کشمیر میں موافق پاکستان اور پاکستان میں تربیت یافتہ دہشت گردوں کی جانب سے کی گئی قتل و غارت گری انتہائی سنگین رہی اور بڑی سنگدلی کے ساتھ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا۔ جب مودی نے ملک میں نوٹ بندی نافذ کرنے کا اعلان کیا، اس وقت جو دلائل دیئے گئے، بحث و مباحث ہوئے، ان میں یہی کہا گیا کہ نوٹ بندی کے مقاصد میں سے ایک وادیٔ کشمیر میں دہشت گردی پر قابو پانا ہے۔ مودی نے نوٹ بندی کی جو وجوہات پیش کی تھی، ان میں ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے مالیہ کی فراہمی یا فنڈنگ کو روکنا بھی نوٹ بندی کا ایک مقصد ہے۔ بعد میں کشمیر کو آرٹیکل 370 اور 35A کے تحت حاصل خصوصی موقف منسوخ کرتے ہوئے جو مقاصد بیان کئے گئے، ان میں سے ایک مقصد کشمیر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں پر قابو پانا بتایا گیا۔ اس پس منظر میں ہم نے راہول بھٹ کے قتل کی پریشان کردینے والی خبر (مئی 2022ء) سنی ، راہول بھٹ ایک کشمیری پنڈت تھے اور موافق پاکستان عسکریت پسندوں کے ایک گروپ ’’کشمیر ٹائیگرس‘‘ نے انہیں قتل کیا۔ اس واقعہ پر حکمراں جماعت کے وہ قائدین جو ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر بڑھ چڑھ کر بولا کرتے تھے، خاموش ہیں جبکہ واٹس ایپ یونیورسٹی کو اس بہیمانہ قتل کیلئے کشمیری مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے کا ایک اور نکتہ مل گیا۔ یہ ایسی بہیمانہ کارروائی ہے جسے دہشت گرد تنظیم نے انجام دیا۔ یہ وہ تنظیم ہے جس کو پاکستان میں موجود ان تربیتی کیمپوں میں انتہائی غیرانسانی طریقوں کی تربیت دی گئی، جسے امریکہ نے مالیہ فراہم کیا۔ مسئلہ کشمیر کیلئے کئی ایک عوامل ذمہ دار ہیں اور وادی میں جو موجودہ ہلچل مچی ہے، وہ بھی انہیں عوامل کی وجہ سے ہے۔ ایک تو وادی کی خودمختاری ختم کرنے کے باعث مقامی عوام میں اجنبیت کا احساس بڑھ گیا ہے اور وہی احساس دہشت گردوں کیلئے وادی میں زرخیز زمین فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ وہی دہشت گرد ہے جو ہمارے پڑوسی ملک میں پرورش پائے، پلے بڑھے اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کی اور ان کی تربیت کیلئے امریکہ نے مکمل طور پر مالیہ فراہم کیا۔ امریکہ کا مقصد مغربی ایشیا میں پائے جانے والے تیل کے ذخائر پر کنٹرول برقرار رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایک آقا کی طرح اپنے غلام پاکستان کے ذریعہ کام کروا رہا ہے اور اسی کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل کررہا ہے۔ واضح رہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے دورِ وزارت عظمیٰ میں کشمیر کے ناراض گروپوں سے مذاکرات کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ واجپائی نے اس وقت بڑے ہی پرعزم انداز میں کہا تھا کہ کشمیر کے مسائل کا حل انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت میں پوشیدہ ہے۔ بعد میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی اپنے دورِ وزارت عظمیٰ میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی خاطر ناراض کشمیریوں سے مذاکرات کی کوشش کی۔ آج جبکہ ناراض کشمیری گروپوں کے ساتھ واجپائی کی بات چیت یا مذاکرات کو فراموش کردیا گیا ہے، لیکن یٰسین ملک سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ملاقات کو بڑے زور و شور کے ساتھ ایسے پیش کیا جارہا ہے، جیسے کانگریس نے وادیٔ کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی ہو حالانکہ بات چیت کا آغاز اٹل بہاری واجپائی نے کیا تھا اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے واجپائی کی کوششوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی۔آپ کو یہ بھی یاد دلادوں کہ دہشت گردوں یا عسکریت پسندوں کی رہائی کا آغاز کانگریس کی حکومت میں نہیں بلکہ وی پی سنگھ اور بی جے پی کی حکومت میں ہوا۔ مثال کے طور پر روبیہ سعید کا اغوا۔ جس وقت روبیہ سعید کو عسکریت پسندوں نے اغوا کیا تھا، اس وقت مرکز میں وی پی سنگھ کی حکومت تھی اور اس حکومت کو بی جے پی کی تائید حاصل تھی۔ اس واقعہ کے بارے میں پردہ ڈالتے ہوئے علاقہ کی موجودہ صورتحال کیلئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ وادی کشمیر میں جو سب سے ضروری عمل ہے، وہ یقینا جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرنا اور وادی کی خودمختاری بحال کرنا ہے، لیکن یہ کرنے کی بجائے مودی حکومت نے صدر راج یا مرکز کی حکمرانی نافذ کرتے ہوئے جمہوری عمل کو خطرہ میں ڈال دیا ہے جبکہ وادی میں کثیر تعداد میں فوج کی موجودگی شہری زندگی کیلئے مسلسل تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہے اور یہ موجودگی مسلسل عوام کی نظروں میں کھٹک رہی ہے۔ 2014ء کے بعد مودی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی جہاں تک جمہوری میکانزم کا سوال ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ عمل الٹے سمت میں چلنے لگا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ یو پی اے حکومت کے دوران کشمیری پنڈتوں کو اُن کی اپنی پیاری زمین پر واپسی بھیجنے کیلئے سنجیدہ کوشش کی گئی اور یو پی اے حکومت میں شروع کردہ اس عمل کے نتیجہ میں چند پنڈت خاندان وادی میں نہ صرف واپس ہوئے بلکہ ان کی بازآبادکاری بھی کی گئی۔ اس کام کیلئے کانگریس کی زیرقیادت حکومت نے قابل لحاظ مالیہ مختص کیا تھا۔ ایک سب سے اہم قدم جو فی الوقت منجمد کردیا گیا ہے، وہ مصالحت کاروں کی رپورٹ ہے۔ یو پی اے حکومت نے دلیپ پٹگاؤنکر، ایم ایم انصاری اور رادھا کمار پر مشتمل مصالحت کاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی تھی اور اس ٹیم نے متعدد مرتبہ کشمیر کے مصروف ترین دورے کئے اور خودمختاری کی بتدریج بحالی سے متعلق سفارشات پیش کی۔
جہاں تک آرٹیکل 370 کی منسوخی کا سوال ہے، یہ ہمیشہ بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے اور بی جے پی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو ہی کشمیر سے متعلق تمام مسائل کا حل سمجھ لیا ہے۔ کم از کم دو سال سے وادیٔ کشمیر میں شہری زندگی ابتر ہوچکی ہے، اور جمہوری آوازوں کو ریاست کی پالیسی سازی میں کچھ خاص مقام نہیں ملا۔ راہول بھٹ کے قتل نے ایسے مسلسل مسائل پر پھر ایک بار توجہ مرکوز کروا دی ہے جو حکومت کی نگرانی یا اس کے تحت ہے۔ وادی میں جمہوریت کی صورتحال کا اندازہ ان مظاہرین کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سے لگایا جاسکتا ہے۔ جو لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے ملاقات کی کوشش کررہے تھے لیکن وہ کشمیری پنڈتوں اور دیگر احتجاجی مظاہرین سے ملاقات کیلئے نہیں آئے۔ ان حالات میں مظاہرین نے ایرپورٹ تک مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیاس کے شیل برسائے۔ جس طرح سے ریاست ،کشمیر سے جڑے مسائل سے نمٹ رہی ہے، اس کا اندازہ عمر عبداللہ کے ٹوئٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے مظاہرین پر آنسو گیاس کے شیل برسانے جیسے واقعات کو انتہائی شرمناک قرار دیا اور کہا کہ یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ قانونی طور پر جائز اور منصفانہ احتجاج کرنے والے مظاہرین کے ساتھ انتہائی ناروا انداز میں نمٹا گیا اور ان پر ظلم کیا گیا ۔ اس طرح کا ظلم کشمیری عوام کیلئے کوئی نیا نہیں ہے۔ جب بھی انتظامیہ کسی بھی مسئلہ سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرتا ہے، تو ظلم کا مظاہرہ کرتا ہے، ایسے میں اگر لیفٹننٹ گورنر ،کشمیری پنڈتوں کا تحفظ نہیں کرسکتے تو پھر پنڈتوں کو احتجاج کرنے کا حق ہے۔
سارے ملک میں ایک ایسا تصور پیدا کیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر دراصل ہندو۔ مسلم کا مسئلہ ہے جہاں ہندو اقلیت کو مقامی مسلمان کچل رہے ہیں۔ یہی وہ تصور ہے، جسے جان بوجھ کر ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ جیسی فلم میں پیش کیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دائیں بازو کے کرتا دھرتاؤں نے اس فلم کی ستائش کی حالانکہ فلم میں جو کچھ دکھایا گیا، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ راہول بھٹ کے قتل پر احتجاج کرنے والے کشمیری پنڈتوں نے اننت ناگ میں سوال کیا کہ آیا وہ ’’نیا کشمیر‘‘ ہے جس کی مودی بات کررہے ہیں۔ کشمیری پنڈت اس بات کیلئے کشمیری مسلمانوں سے اظہار ممنونیت کررہے ہیں کہ غم کی اس گھڑی میں وہ ان کی مدد کیلئے اُمڈ پڑے ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کے مطابق انتظامیہ کے موثر ہونے کے دعوے بالکل غلط ہیں، اور راہول بھٹ کے قتل نے ان دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کیونکہ عسکریت پسند بڑی آسانی سے سرکاری عمارتوں میں داخل ہوکر ایک ملازم کو قتل کرکے چلے جاتے ہیں۔ راہول بھٹ کی بیوہ میناکشی بھٹ کا الزام ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کشمیری پنڈتوں کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنا رہے ہیں اور مودی اور امیت شاہ ، کشمیری پنڈتوں کو توپ کے بارود کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں دونوں کو کشمیر آنے اور بناء کسی سکیورٹی کے گھومنے کا چیلنج کرتی ہوں۔ کشمیر میں پنڈتوں کے احتجاج کے دوران 350 پنڈت ملازمین نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پر اپنے استعفے دے دیئے۔ کشمیر میں اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے صرف پنڈتوں کو نہیں کرنا پڑا بلکہ راہول بھٹ کے قتل کے بعد ایک اور شخص ریاض احمد کا بھی قتل کردیا گیا۔ ایک آر ٹی آئی جہد کار کی تحقیقات لرزہ دینے والی ہے جس میں بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں نے کشمیر میں جملہ 1,724 افراد کو قتل کیا جن میں 89 کشمیری پنڈت اور مابقی دوسرے مذاہب و عقائد کے ماننے والے اور مسلمان تھے ۔ قتل کے یہ واقعات پچھلے 31 برسوں کے دوران پیش آئے۔