کشمیر تا ایودھیا بی جے پی کی سیاست پر غالب

   

برکھادت
جاریہ ہفتہ ایودھیا میں زبردست سیاسی انقلاب آیا جبکہ رام مندر کے لئے بی جے پی نے بھومی پوجن تقریب منعقد کی۔ سابق مقام یا متبادل مقام پر مندر کی تعمیر کا فیصلہ ممکن ہے کہ عدالت کی جانب سے سنایا گیا ہو لیکن پارٹی کے لئے اور اس کے حامیوں کے لئے مزدور مکمل طور پر نریندر مودی حکومت کی جانب سے سربراہ کئے گئے تھے۔
تمام سڑکوں پر بھگوا نعرے گونج رہے تھے، غبارے اور خوشی و مسرت کے نقیب پرچم چھائے ہوئے تھے۔ سب سے نمایاں منظر یہ تھا کہ وزیر اعظم مودی نے عملی اعتبار سے پورے قصبے کی ہورڈنگس اور پوسٹرس پر ہر سڑک پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ دن لاکھوں بھکتوں کے لئے روحانی انقلاب ہوسکتا ہے لیکن اسکی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ واضح طور پر یہ تقریب توجہ مبذول کروانے کے لئے کی گئی تھی لیکن سیاسی پیغام نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مودی کی شہرت میں اتنا اضافہ ہوا کہ قبل ازیں اتنا کبھی نہیں ہوا تھا۔ وسیع الذہن و فراخ دل افراد اور ترقی پسند افراد نے کامیابی کے اس مظاہرہ پر اظہار افسوس کیا جو اصل دھارے کے ذرائع ابلاغ پر اپنا غلبہ حاصل کرچکا تھا۔ دیواروں پر جو پوسٹر چسپاں کئے گئے تھے اور ان پر بڑے بڑے دعوے و کہانیاں شائع کی گئی تھیں دستور کی دفعہ 370 کی موثر تنسیخ اور جموں و کشمیر کی ریاست کے مرکزی زیر انتظام علاقہ میں تبدیلی کا تذکرہ تھا۔

جموں و کشمیر کے بارے میں چند انفرادی سیاست دانوں کے سوائے جیسے پی چدمبرم ہیں بمشکل کسی نے بامعنی اور قابل ذکر متبادل تبصرہ کیا ہے۔ عملی اعتبار سے چاہے ایودھیا ہو یا کشمیر اس دن کی اہمیت اس لئے ہوگی کہ بی جے پی نے سیاسی بیانات پر مکمل غلبہ حاصل کرلیا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں خانگی طور پر شکایت کرتی ہیں کہ ان کی جانب سے کوئی ردعمل اس لئے ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ یہ مناسب نہیں تھا۔ اگر وہ جموں و کشمیر میں ترقی کی مخالفت کرتے تو انہیں قوم دشمن قرار دیا جاتا۔ اگر وہ مخالفت جاری رکھتے تو انہیں اپنی حد میں رہنے کے لئے کہا جاتا۔ اگر وہ نہرو کے فلسفے کی تائید کا اظہار کرتے تو ان سے کہا جاتا کہ وہ کتابی سیکولر ازم کے علمبردار ہیں۔ اگر وہ مذہبی علامتوں کی بات کرتے تو انہیں فرضی آزاد خیال کہا جاتا۔

ضروری ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پالیتے تاکہ کامیاب ہوسکیں، حقیقی ناکامی دگنی ہے۔ کوئی طاقتور شخصیت جو مودی کی جگہ لے سکے موجود نہیں ہے۔ ایک انوکھی شخصیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپوزیشن کو اپنی بات عوام تک پہنچانا مشکل ہو رہا ہے۔ آپ وضاحت نہیں کرسکتے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں کیونکہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ آپ کے نظریات کے برعکس ہوگا، اور اپنی اس کارروائی سے آپ یہ ظاہر کردیں گے کہ آپ کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے۔ آپ خود اپنے پیغام پر یقین نہیں رکھتے۔ ہندوستان کا بایاں بازو ممکن ہے کہ خالص نظریہ رکھتا ہو یا کانگریس کی طرح (گرگٹ کی طرح) رنگ نہیں بدلتا، جبکہ انتخابات آتے ہیں سیاست کی بات کرتا ہے چاہے وہ موثر ثابت ہو یا نہ ہو۔
بیشتر ترقی پسند لوگوں پر تنقید کرنے میں اپنی صلاحیت ضائع کرتے ہیں وہ نہیں دیکھتے کہ بایاں بازو کافی برہم ہے یا نہیں۔ اس کے بجائے وہ اپنی توانائی ایک نئے متبادل کی تلاش میں ضائع کرتے ہیں جو دستوری فراخ دلی کا متبادل ثابت ہوسکے۔ اتفاق کی بات ہے کہ دایاں بازو بھی ان ہی افراد کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے جنہیں بایاں بازو بناتا ہے نتیجہ یہ کہ اس پورے کھیل کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
تاحال ہم جانتے ہیں کہ مودی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے اتفاق سے اعلانات کئے ہیں جن میں ایک ہی بات کا نئے الفاظ میں اعادہ کیا گیا، یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مندر کے لئے بھومی پوجن کی گئی اور اسی دن کی گئی جبکہ جموں و کشمیر کا انڈین یونین میں خصوصی موقف منسوخ کردیا گیا۔ بی جے پی نے اس طرح اشارہ دیا کہ اس کی نظریاتی وابستگی دو اہم باتوں کے ساتھ ہے جن کی ابھی تکمیل نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کے لئے ابھی بڑے پیمانے پر سیاسی تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

کشمیر میں بھی جہاں پر اصل دھارے کے سیاستدانوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور انتہائی عدم رواداری کا انتظامیہ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے لیکن سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت پر عوامی تائید یا عوامی برہمی کافی مقدار میں حاصل نہیں کرسکیں۔

ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تین کارنامے انجام دے رہی ہیں، وہ اپنے طور پر بی جے پی کا ایک چھوٹا سا متبادل تیار کررہی ہیں لیکن اس کوشش کو وہ پہلے ہی ترک کرچکی ہیں۔ جدید سیاست کا آلات کے ذریعہ مقابلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے یہ آلات پرانے اور زنگ آلود ہیں۔ یہ تمام تینوں طریقے ممکن ہے کہ ناکام ہو جائیں گے۔ ہندوستان کو ایک نئے اپوزیشن کی ضرورت ہے۔