رویش کمار
دہلیمیں مقیم سفارت کاروں نے جب کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت چاہی، حکومت نے انکار کیا؛ بیرونی صحافیوں کو دورۂ کشمیر کی اجازت نہیں دی گئی؛ ہندوستان نے امریکی رکن کانگریس کرس وان ہالن کی کشمیر کا دورہ کرنے کیلئے درخواست بھی مسترد کردی۔ اب، یہ ہوا ہے کہ انڈیا نے یورپین یونین کے 23 ایم پیز کو کشمیر کا دورہ کرایا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس ٹور کو خانگی قرار دیئے جانے کے باوجود ہمیں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وزیراعظم مودی ان ایم پیز سے بات کررہے ہیں اور قومی سلامتی مشیر بھی مل رہے ہیں۔
اگر یہ دو روزہ دورہ سرکاری نہیں بلکہ خانگی رہا تو پھر ان ایم پیز کی رائے کی کیا اہمیت رہے گی۔ کیا یہ مناسب ہے کہ یورپی یونین کے ایم پیز کا انڈیا کی صحافت سے رابطہ ہوا ہے؟ انھوں نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو ہندوستان کا داخلی معاملہ قرار دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خانگی وفد کے اس موقف کی وقعت کیا ہے؟ یہ ایم پیز مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ خود ان کے ملک میں کشمیر پر ان پارٹیوں کا موقف کیا ہے، یہ بالکل واضح نہیں ہے۔حکومت نے اس معاملے میں کوئی ٹوئٹ نہیں کیا۔ کوئی صحافتی بیان بھی جاری نہیں کیا گیا ہے، جو کہ وزارت امور خارجہ کی سرگرمیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ ’دی ہندو‘ کی سوہاسنی حیدر نے دہلی میں یورپین یونین ایمبیسی سے بات کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ ٹور سرکاری نہیں بلکہ خانگی ہے۔ یہ ایم پیز اٹلی، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پولینڈ کے بتائے گئے، لیکن ان کے نام اور پارٹیوں کے نام واضح نہیں ہوئے۔ کشمیر پر یورپین یونین پارلیمنٹ میں اور امور خارجہ کمیٹی کے اندرون ستمبر میں غوروخوض کیا گیا تھا۔ یورپی یونین کے وائس پریسیڈنٹ نے اپنی تقریر میں کشمیر کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا لیکن انڈیا کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں کی تھی۔ امریکی پارلیمنٹ میں بھی کشمیر کے بارے میں سوالات پر ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق میں غوروخوض کرتے ہوئے ہندوستان پر تنقید کی گئی تھی۔
اس بات کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہے کہ ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو کشمیر جانے سے روکا گیا ہے۔ راہول گاندھی کو ایئرپورٹ سے واپس ہونا پڑا۔ ایم پی غلام نبی آزاد کو کشمیر جانے کی سپریم کورٹ نے شرائط کے ساتھ اجازت دی۔ سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے یورپی یونین ایم پیز جن کی تفصیلات ظاہر نہیں، انھیں خانگی ٹور پر کشمیر جانے کی اجازت دی گئی، اور دورے سے قبل وہ وزیراعظم مودی سے ملاقات کئے۔ جب دیگر ملکوں کے ایم پیز پرائیوٹ ٹور پر کشمیر جاسکتے ہیں تو ہندوستان کے قائدین ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ حتیٰ کہ ایک اسٹوڈنٹ محمد علیم سید کو اپنی فیملی سے ملاقات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہونا پڑا۔
کل یگ کے بھگوان کیخلاف انکم ٹیکس دھاوے
ٹاملناڈو کا ایک ’بابا‘ جسے ’کالکی بھگوان‘ کے طور پر پیش کیا گیا، اس کے پاس 600 کروڑ روپئے مالیت کے اثاثہ جات پائے گئے۔ لیکن اس میں بڑی خبر یہ ہے کہ کالکی بابا ملک نہیں چھوڑیں گے اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا سامنا کریں گے کیونکہ وہ اس ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس ملک کے عوام نے قانونِ ارض پر ایقان رکھتے ہوئے اتنی بھاری رقم دی ہے، اور کالکی بھگوان نے اس ملک کا احترام کیا ہے۔ وجئے مالیا یا نیروو مودی کو سبق سیکھنا چاہئے۔ کالکی بھگوان خوفزدہ نہیں ہے۔ بھگوان راہ فرار اختیار نہیں کرتا ہے۔
وی وجئے کمار نائیڈو ’کالکی بھگوان‘ بننے سے قبل لائف انشورنس کمپنی میں کلرک تھا۔ وہاں بھی اس کا کام زندگی کا تحفظ کرنا رہا اور اب زندگی کی سلامتی نئی شکل میں ہے۔ شاید اسی لئے انکم ٹیکس دھاوا ہونے کے باوجود بابا کے بھکت ان کو ٹوئٹر پر تائید و حمایت کے مکتوب لکھ رہے ہیں۔ اپنی میز پر بھاری مقدار میں کرنسی نوٹس دیکھنے پر سمجھ نہیں آرہا کہ گاڈ کون ہے۔ کالکی یا پھر یہ نوٹ۔ معاشی انحطاط کا دور چل رہا ہے، لہٰذا کوئی فیصلہ کرنے میں جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوٹس صبح ناشتہ میں کھائے جاتے ہیں۔ 200 امریکی ڈالر کے نوٹس ہیں۔ ہندوستانی کرنسی میں 44 کروڑ روپئے ہیں۔ 88 کیلوگرام سونا برآمد کیا گیا ہے۔ 1271 کیارٹ کے قیمتی ہیرے بھی پائے گئے۔ نقدی کے رسائد ملے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ 600 کروڑ روپئے مالیت کے غیرمعلنہ اثاثہ جات ہیں۔ کالکی بھگوان عاجلانہ طور پر نجات (نروان) دلاتا ہے۔ امیزان، فلپ کارٹ یا بگ بازار کو سوپر مارکیٹس کہتے ہیں، لیکن قیاسی سوپر مارکیٹ ٹاملناڈو میں بنائی گئی۔ مختلف ویب سائٹس نے بتایا ہے کہ ان کے آشیرواد سے ہی وہ آگے بڑھے ہیں۔
ڈوبی ہوئی رقم واپس مل گئی ہے۔ ایسے ملک میں جہاں سسٹم درست طور پر کام نہیں کرتا ہے، اگر آپ کو ڈوبی ہوئی رقم ملتی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سسٹم کے لوگ کچھ نہیں کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ ’اماں‘ کے یوم پیدائش پر کسی بھکت کا ایک عام سکہ گولڈ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور یہ ایک کروڑ روپئے کی مالیت کا بن جاتا ہے۔ یہ کرشمہ پیش آرہا ہے اور ہم ٹی وی کیلئے بیٹھ کر اور اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے وقت ضائع کررہے ہیں۔ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ سب باتیں جاننے کے بعد لوگ قسمت آزمانا چاہیں گے۔ اگر آپ ہنس رہے ہیں تو مجھے بُرا معلوم ہوگا۔ ایک ویب سائٹ کے Miracle سیکشن میں لکھا ہے کہ ایک سارق جویلری شاپ سے کئی اشیاء لے کر فرار ہورہا تھا کہ یکایک اسے کچھ محسوس ہوا اور اُس نے مسروقہ اشیاء وہیں چھوڑ دیئے۔ معلوم ہوا کہ اُس اسٹور کا نام شری کالکی سورنا بھنڈار ہے۔ سوچئے کہ چور بھی بدل رہا ہے۔ میں آپ کو یہ واقعہ اس بات کا یقین دلانے کیلئے بتا رہا ہوں کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
بابا کے چمتکار سے تمام برتن صاف ہوجاتے ہیں۔ ایک بھکت نے ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ رات میں کچن کے تمام ظروف خودبخود صاف ہوجاتے ہیں۔ اگر اس طرح کے ’بابا‘ ہندوستان کی سرزمین پر نہیں تو اور کہاں آئیں گے۔ ایسے بابا چین اور امریکہ میں نہیں مل سکتے ہیں کیونکہ وہ iPad پر مصروف ہوں گے۔ ہندوستان کیلئے فخر کی بات ہے کہ بابا کے چمتکار سے برتن رات میں صاف ہوجاتے ہیں۔ اگر ہر ریاست اور محلہ میں اس طرح کا بابا ہو تو برتن صاف کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، وہ تو خودبخود ہوجائیں گے۔ کالکی بھگوان کی چینائی میں Oneness University ہے، جو 1996ء میں قائم کی گئی۔ اس یونیورسٹی ویب سائٹ پر تحریر ہے کہ کالکی بھگوان اور ان کی بیوی اماں اسی طرح کے اوتار ہیں جیسا کہ ’بٹھوان‘ موسیقی کا اوتار تھا۔ گاندھی جی عدم تشدد کے اوتار تھے۔ آئنسٹائن طبعیات کے اوتار تھے۔ آپ ہنس نہیں رہے ہو۔ میں سنجیدہ نوعیت کی خبر پڑھ رہا ہوں۔ کالکی، خدا کو پہچاننے میں ماہر ہے۔ یعنی ہم گاڈ کی قابلیت پیدا کرلینے میں ماہر ہیں۔ وہ جو خدا کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، انھیں افسوس ہوگا کہ کالکی گاڈ کے بارے میں پہلے کیوں معلوم نہ ہوا؟
کالکی کی جائیداد کی تلاش میں انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کئی مقامات پر دھاوے کئے۔ یہ دھاوے آندھرا پردیش، کرناٹک اور ٹاملناڈو میں 40 مقامات پر کئے گئے۔ کلرک سے کالکی بننے کا خیال زبردست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بابا کو کوس نہیں رہا ہوں کیونکہ ایسی کامیابی پانے والا وہ واحد شخص نہیں ہے۔ اچھا ہوتا کہ حکومت ان سے ملاقات کیلئے فیس پر سبسیڈی دیتی! ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق کالکی بھگوان اور اماں بھگوان کے درشن کیلئے فیس 5,000 روپئے ہے۔ خصوصی درشن کی فیس 50,000 روپئے سے شروع ہوتی ہے۔
انکم ٹیکس دھاوے اس لئے ہوئے کیونکہ بابا نے رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن کمپنیوں میں سرمایہ مشغول کیا۔ ان کے خلاف 2010ء میں کئی عرضیاں آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں داخل کی گئیں لیکن نتیجہ معلوم نہیں ہے۔ دوسرے باباؤں کیلئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو کوئی ایک گاڈ بننے کی سوچ رہے ہیں ، ان کیلئے مشورہ ہے کہ اب دیر ہوچکی ہے۔ جولائی میں ’انڈیا ٹوڈے‘ نے رپورٹ دی کہ 4 لاکھ کروڑ روپئے مندروں کے ایجوکیشنل ٹرسٹ میں جمع ہیں۔ متعلقہ لوگ کچھ بھی رقم خرچ نہیں کررہے ہیں اور انکم ٹیکس استثنیٰ لے رہے ہیں۔ اس طرح کے ٹرسٹوں کے خلاف حکومت سخت کارروائی کرنے والی ہے۔ 1997ء کی کالکی بھگوان کے بارے میں میگزین ’آؤٹ لک‘ کی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا کہ افواہوں اور استحصال کے ذریعے لوگوں کو شکار بنایا جاتا ہے۔ عوام کو ایسے باباؤں نے گھیرے رکھا ہے۔ ٭
[email protected]
