کشمیر : سرکاری اقدامات سے علیحدگی پسندوں کا فائدہ

   

Ferty9 Clinic

برکھا دت

جموں و کشمیر کے خصوصی درجہ سے دستبرداری اور وادی میں تحدیدات لاگو کئے جانے کے ایک ماہ بعد اب یہ پوچھنے کا وقت ہے کہ اس کے مستقبل کیلئے حکومت نے کیا خاکہ بنا رکھا ہے؟ آرٹیکل 370 کی تنسیخ جیسے انتشار پیدا کرنے والے فیصلے کے فوری بعد نظم و نسق اور سکیورٹی ایجنسیوں کی واجبی توجہ رہی کہ جانوں کے نقصان کو روکا جائے۔ اصل دھارے کے سیاستدانوں کی گرفتاریوں کی ابتدائی طور پر بالکلیہ احتیاطی اقدام کے طور پر وضاحت کی جاسکتی تھی تاکہ قانون کی بالادستی اور امن و ضبط کو برقرار رکھا جاسکے۔ ایک ماہ بعد اُس منطق کو قائم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ بھلے ہی وادی میں کشمیری اصل دھارے کیلئے بہت کم ہمدردی ہے، لیکن یہ معاملہ نریندر مودی حکومت کیلئے معمہ ہے۔ جتنا زیادہ آپ اصل دھارے کو استصواب سے محروم کروگے، اتنا ہی آپ ان کی ہتک کے مرتکب ہوگے، جتنا زیادہ آپ انھیں حاشیہ پر ڈالیں گے، آپ علحدگی پسندوں اور پھر عسکریت پسندوں کو اتنا ہی طاقتور بناؤگے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں سرینگر کا میں نے کئی بار سفر کیا اور یہی ایک چیز فوری طور پر میرے ذہن میں آئی: عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے سیاستدانوں کی محروسی کے تعلق سے دوسروں کی مصیبت پر خوشی جیسا ماحول دیکھنے میں آیا ہے۔ اُن کی پارٹیوں کے سیاسی ورکرز جن میں سے کئی کو دہشت گردوں نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی جرأت پر نشانہ بنایا ہے، ان سے ہٹ کر دیگر کی اہانت کیلئے بہت کم یا صفر ہمدردی ہے، جن کا مسکن گزشتہ کئی ہفتوں سے سنٹار ہوٹل یا چشمہ شاہی اور ہری نواس ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس صورتحال کو ’’واہ، میں نے تو تم سے کہا تھا‘‘ والا موقع باور کرسکتی ہے، یا پھر تاڑ لے کہ یہ تحقیر کس حد تک خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
حکومت کے زیرانتظام ایک فون ہیلپ لائن کے باہر میں ایک نوجوان سے ملی (جسے سعودی عرب میں اپنے والد سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کیلئے کئی گھنٹے لگے) جس نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھے بتایا کہ یہ حراستیں ’اصل دھارے ‘ پر طمانچہ ہے۔ ’’اُن کی اوقات پتہ لگ گئی ہے اُن کو۔‘‘ اندرون شہر کے علاقہ میں جہاں برسہا برس سے ہر شام نیم فوجی دستوں اور پتھروں سے لیس احتجاجیوں کے درمیان روایتی جھڑپوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی رہی ہے، وہاں دیگر لوگ اصل دھارے کی زبوں حالی پر کھلے عام ٹھی ٹھی کررہے ہیں۔ ان میں سے کئی نے کبھی کسی الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالا ہے۔ آج، وہ کہتے ہیں کہ اُن کا موقف درست ثابت ہوا ہے، اب تو سجاد لون جیسے لیڈر کو بھی مقید کردیا گیا ہے۔ سید صلاح الدین (حزب المجاہدین کا عسکریت پسند جو اَب پاکستان میں ہے) کے بعد سجاد لون پہلے نمایاں کشمیر علحدگی پسند ہیں جنھوں نے 2002ء میں انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ کیا۔ انھوں نے اپنے موافق مذاکرات علحدگی پسند والد کے قتل کیلئے پاکستانی مملکت اور آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اُن کے بھائیوں میں سے ایک ہنوز علحدگی پسند ہے۔ ان کی پارٹی کو بی جے پی کی حمایت ملی، اور سجاد لون نے پی ایم کو ’’بڑا بھائی‘‘ جیسا قرار دیا۔ سجاد لون متعدد سیاستدانوں میں سے ہیں جن کو نظم و نسق نے محروس کررکھا ہے، ظاہر ہے اوپر سے ملے احکام پر ایسا کیا گیا۔ سرینگر کے میئر جنید مٹو بھی سابق علحدگی پسند ہیں۔ گزشتہ سال وہ بی جے پی کی تائید سے الیکشن جیتے تھے۔ جنید کو طبی علاج کیلئے دہلی کا سفر کرنے کی اجازت دی گئی، اور جب وہ دارالحکومت میں تھے، مجھے ان کا انٹرویو لینے کا موقع ملا، جو شاید اصل دھارے کے کسی لیڈر کا پہلا نقطہ نظر ہوگا جو حراست سے گزرا ہے۔ انھوں نے اسے ’’دم گھٹانے والا اور اہانت آمیز‘‘ اقدام قرار دیا۔ انٹرویو کے دو روز بعد انھیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
ان تمام تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے وہ جنھوں نے کبھی انڈین یونین پر یقین نہیں کیا، یہ دلیل پیش کرنے کیلئے ان کی ہمت مزید بڑھ گئی ہے کہ اس تمام مدت میں وہ ہی صحیح تھے۔ بی جے پی نے وراثتی اور خاندانی جاگیروں کے خاتمے کے ساتھ ’’نیا کشمیر‘‘ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن یہ کس طرح ممکن ہے جبکہ تمام تر سیاسی سرگرمی کا ناطقہ بند کردیا گیا ہے۔ نئے نمائندوں کی آنے والی نسل کو ہم کیا پیام دے رہے ہیں؟ ویسے اصل دھارے کے سیاستدانوں نے خود بھی اپنے لئے اچھا نہیں کیا ہے۔ ان میں سے صرف دو نے اپنی رہائی کیلئے جدوجہد کی خاطر عدالت میں حبس بیجا کی عرضیاں داخل کئے ہیں۔ دیگر نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو چیلنج کیا ہے لیکن ایک ماہ ضائع ہونے دیا، ایسے جیسا کہ وہ بالکلیہ مفلوج ہیں۔ شاید وہ مفلوج ہی ہیں۔ ورنہ ، مثال کے طور پر اس کی کیا وضاحت ہے کہ زیرحراست متعدد نمایاں سیاستدانوں میں سے کسی نے بھی بھوک ہڑتال یا مرن برت کے طریقۂ احتجاج پر غور نہیں کیا ہے۔ آخر کو گاندھیائی ستیہ گرہ کا اخلاقی اُصول ہی بڑی طاقت رکھتا ہے۔
لوگوں نے کئی شخصیتوں کے ماڈل نصب کررکھے ہیں جن میں ایروم شرمیلا، میدھا پاٹکر اور انا ہزارے کے نمونے شامل ہیں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ اس سے کوئی حکومتی فیصلوں میں تبدیلی ہوتی۔ لیکن اس سے باقاعدہ سیاست اور فعال اختلاف رائے کے تعلق سے عظیم تر پیام تو دیا جاتا۔ صورتحال آج اس قدر شدید ہے کہ اگرچہ وہاں کرفیو کے کوئی احکام لاگو نہیں ہیں، لیکن سرینگر جیسے شہری مراکز میں لوگ دکانات اور تجارتی ادارے کھولنے یا سڑکوں پر آنے سے انکار کررہے ہیں۔ یہی وہ سنسان اور ویران سڑکوں کی تصویروں کی وضاحت ہے جو آپ میڈیا میں دیکھتے ہو۔ اگلا اقدام جس کے ذریعے ضرور تحدیدات کی برخاستگی ہو اور سیاست کو معمول پر لانا چاہئے، اُس کے بغیر صرف علحدگی پسندوں کی طاقت ہی بڑھے گی۔ یہ اُس اقدام کیلئے نہایت عجیب نتیجہ ہوجائے گا جسے مبینہ طور پر کشمیر کو بقیہ ہندوستان کے ساتھ کامل طور پر ضم کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔٭