کشمیر میں جلدہی مذاکراتی عمل شروع کرنے لیفٹیننٹ گورنر کا اعلان

   

جو لوگ ملک کے بٹوارے کیلئے ذمہ دار تھے انہوں نے یہاں بھی مذہب کے نام پربٹوارہ کیا :گورنرمنوج سنہا
سری نگر۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ہے کہ حکومت جموں و کشمیر میں عنقریب مذاکراتی عمل شروع کرے گی جس کا مقصد لوگوں تک پہنچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جموں و کشمیر سے متعلق بیانیہ بدل کر ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جس کی بنیاد امن، ترقی اور سماجی مساوات پر ہو۔ لیفٹیننٹ گورنر نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کے روز یہاں شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقدہ یوم آزادی کی تقریب میں اپنے 28 منٹ طویل خطاب میں کیا۔ یہ خطاب ٹھیٹ ہندی زبان میں تھا جس کی وجہ سے اس کو ٹی وی پر براہ راست دیکھنے والے بیشتر کشمیری سمجھ نہیں پائے۔یہ جموں و کشمیر کو گزشتہ برس 31 اکتوبر کو ایک ‘ریاست’ سے ایک ‘یونین ٹریٹری’ میں تبدیل کرنے کے بعد یہاں کسی بھی لیفٹیننٹ گورنر کا پہلا ‘یوم آزادی’ کی تقریب کا خطاب تھا۔ تاہم حال ہی میں بی جے پی رہنما سے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر بننے والے منوج سنہا نے روایت سے ہٹ کر اپنے خطاب کے دوران اپنا زیادہ وقت ترقی اور امن کی باتوں پر ہی صرف کیا اور ایک بار بھی راست طور پر پاکستان کا نام نہیں لیا۔ تقریب کے شرکا میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران، جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی خاتون چیف جسٹس جسٹس گیتا متل اور سول و پولیس انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار شامل تھے۔ اسٹیڈیم کے اندر اور باہر سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ کورونا وائرس کے پیش نظر یوم آزادی کی تقریب پرچم کشائی، لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب اور چند ثقافتی پروگراموں تک ہی محدود رہی۔لیفٹیننٹ گورنر نے جموں و کشمیر میں مذاکراتی عمل شروع کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہماری سرکار ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جو جموں و کشمیر میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو آنے والے دنوں میں تیز کرنا چاہتے ہیں۔ منتخب نمائندوں جن کی جانوں کو خطرہ ہے ان کو 25 لاکھ روپے کا بیمہ فراہم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘میں جموں و کشمیر پولیس، سنٹرل آرمڈ پولیس فورس اور فوج کے بہادر جوانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے ملک کی سالمیت کو بنائے رکھنے اور لوگوں کو پرامن ماحول فراہم کرنے کے لئے اپنی قیمتی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ یہ موقع اجے پنڈتا اور وسیم باری کو یاد کرنے کا ہے جنہوں نے ہندوستان کے آئیڈیا کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں دی ہیں۔منوج سنہا نے جموں و کشمیر میں بیانیہ بدلنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جو لوگ ملک کے بٹوارے کے لئے ذمہ دار تھے انہوں نے یہاں بھی مذہب کے نام پر بٹوارے کی ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کی تاہم یہاں کے عوام نے ہر بار ان کی آئیڈیالوجی کو خارج کی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں رہنے والے ہندو اور مسلمان اتحاد کے حامی رہے ہیں نہ کہ بٹوارے کے طرفدار۔ انہوں نے کہا کہ ‘بدقسمتی سے آزادی کے بعد کچھ غلط فیصلے لئے گئے۔ ان فیصلوں کی وجہ سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے دلوں میں فاصلے پیدا ہوئے۔ سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی نے انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت پر زور دیا تھا۔ کشمیر میں دہائیوں تک انسانیت دہشت گردوںسے ہارتی رہی۔