کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کا 107 واں دن

,

   

انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر پابندی جاری عام زندگی بری طرح متاثر

سری نگر، 19 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) وادی کشمیر میں 107 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور غیر اعلانیہ ہڑتال کے بعد اگرچہ معمولات زندگی کی بحالی کی طرف بڑھنے کی رفتار تیز ہے لیکن انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر مسلسل پابندی کے باعث مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تجار کا کام کاج بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا ہے ۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر یقینی صورتحال سایہ فگن ہوئی اور غیر اعلانیہ ہڑتال کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا تھا۔موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی میں منگل کے روز معمولات کو بحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہوتے ہوئے دیکھا گیا، بازاروں میں دکانیں دن کے بیشتر وقت تک کھلی رہیں اور سڑکوں پر پرائیویٹ گاڑیوں کی بھر پور نقل وحمل کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ بشمول بڑی بسوں کی آمد رفت میں بھی روز افزوں اضافہ ہورہا ہے ۔شہر سری نگر کے جملہ علاقوں کے علاوہ دیگر ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بھی معمولات زندگی بحالی کی طرف گامزن ہورہے ہیں تاہم جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ اور ملحقہ علاقوں میں گزشتہ دنوں مبینہ طور پر پوسٹر چسپاں ہونے کے بعد ہڑتال کی وجہ سے زندگی درہم وبرہم رہنے کی اطلاعات ہیں۔ادھر وادی میں جہاں ایک طرف معمولات زندگی بحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہیں وہیں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر جاری پابندی کی وجہ سے صحافیوں، طلبا اور تاجروں کا کام کاج بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ خدمات کی مسلسل معطلی سے ان کا پیشہ ورانہ کام کاج از حد متاثر ہورہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ معمولات کافی حد تک بحال ہونے کے باوجود تمام طرح کے انٹرنیٹ خدمات پر مسلسل پابندی کی وجہ سے ہمارا کام کاج بے حد متاثر ہورہا ہے ، گو کہ انتظامیہ نے سرکاری میڈیا سینٹر قائم کیا ہے۔
لیکن وہ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم ہے وہاں انٹرنیٹ اور بجلی بار بار معطل رہتی ہے اور یہ سینٹر یہاں کے صحافیوں کے لئے کام کرنے کا واحد ذریعہ ہے ، وہاں کام کرنے کے لئے قطار میں کھڑا ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے اور بھاری آنے پر تعجیل سے کام کرنا پڑتا ہے ‘۔