کشمیر میں مسلک کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے مرکزی حکومت کوشاں

   

مرکز کی جانب سے ایجنٹوں کا استعمال ۔ صوفی مشن کے وفد کو کشمیری عوام کی مخالفتوں کا سامنا ۔ جہد کاروں کا دعوی
حیدرآباد۔15اکٹوبر(سیاست نیوز) حکومت ہند کشمیر میں مسلک کی بنیاد پر شہریوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کیلئے اپنے ایجنٹوں کا استعمال کرنے لگی ہے۔ کشمیری شہریوں اور انسانی حقوق جہدکاروں نے یہ الزام لگایا اور کہاجا رہاہے کہ جو لوگ کچھ دن قبل وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کئے وہ اب کشمیر کا دورہ کرکے پیغام امن کی بات کر رہے ہیں جبکہ کشمیر کے عوام کا یہ احساس ہے کہ یہ امن کے پیامبر نہیں بلکہ حکومت کے ایجنٹ ہیں جو کشمیر میں عوام کو گمراہ کرنے پہنچے ہیں۔ جہد کاروں کا کہنا ہے کہ خود کشمیر کے شہریوں کو کشمیر اور سری نگر میں قدم رکھنے عدالت کی اجازت لینی پڑرہی ہے اور جو لوگ عیادت کیلئے آنا چاہتے تھے انہیں بھی عدالت سے اجازت حاصل کرنی پڑی لیکن جن لوگوں نے امیت شاہ سے ملاقات کرلی وہ امن کے پیامبر ہوگئے! کشمیری کے جمہوری نمائندوں کو کشمیر میں آزادانہ گھومنے نہیں دیا گیا اور نہ ان کی سیکیوریٹی کا انتظام کرکے عوام سے ملاقات کی اجازت دی گئی تاہم امیت شاہ سے ملاقات کرچکے نام نہاد صوفیوں کو سیکیوریٹی فراہم کرکے روانہ کیا گیا لیکن کشمیر کے مسلمانوں نے ان کی آمد پر احتجاج کرکے انہیں خانقاہوں سے نکال دیا اورواپس جاؤ کے نعرے لگائے گئے ۔ وفد کے نگرانکاروں اور شرکا کی جانب سے کہا جا رہاہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے اور کوئی مسائل نہیں ہیں۔بتایاجاتا ہے کہ کشمیرکے حالات کو معمول پر ظاہر کرنے مرکز نے مبینہ طو ر پر جو ’مشن صوفی ‘ اختیار کیا تھا وہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے کیونکہ کشمیری عوام نے واضح کردیا کہ وہ کشمیر کو مسلک کی آگ میں جھونکنے کے قائل نہیں ہیں اور حکومت مسلک کی آگ میں جھونکتے ہوئے عوام کو آپس میں الجھانے کی سازش کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق امیت شاہ سے ملاقات کرنے والے وفد کی جانب سے کشمیر کو امن کے پیام کے ساتھ روانہ کرکے وعدہ کیا گیا تھا اگر ’مشن صوفی‘ کامیاب ہوگیا تو وزیر اعظم ان سے ملاقات کریں گے اور کشمیر میں بحالی امن میں کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کریں گے ۔مبینہ طور پر حکومت کی ایماء پر روانہ وفد کو کشمیر میں سیکیوریٹی فراہم کی گئی تھی لیکن شہریوں نے ان کا مکمل بائیکاٹ کیا اور جو مرکز کے ایجنٹ ہیں انہوں نے ان کا خیرمقدم کیا ۔جے این یو کی سابق طلبہ قائد شہلا راشد نے کہا کہ وفد کا متعدد مقامات پر گھراؤ کرکے آزادی اور واپس جاؤ کے نعرے لگائے گئے لیکن وفد کی جانب سے ان باتوں کو منظر عام پر نہیں لایا جا رہاہے علاوہ ازیں عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے وفد کے ارکان واپس جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور پولیس کی نگرانی میں روانہ ہوگئے ۔ ’صوفی مشن‘ میں شامل افراد کا ادعا ہے کہ یہ ان کا اپنا مشن ہے لیکن ان کی امیت شاہ سے حالیہ ملاقات کے سبب کشمیری عوام اور خود ان کے معتقدین کا ان پر اعتماد نہیں رہا۔وفد کی نگرانی صوفی سجادہ نشین کونسل کے سربراہ مسٹر نصیر الدین چشتی کر رہے ہیں اور 17 ارکان میں حیدرآباد کے مسٹر سید عبدالقادر قادری وحید پاشاہ‘ مسٹر سید غلام صمدانی علی قادری‘ مسٹر لیاقت حسین رضوی کے علاوہ مختلف شہروں کے آستانوں سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں۔کشمیری عوام کی جانب سے استفسار کیا جا رہاہے کہ جب ان کیلئے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے تو ’مشن صوفی‘ کے ذمہ داروں کے فیس بک پر کس طرح سے وہ اپنی چنندہ تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں۔