رام پنیانی
ابھینو کمار نے (’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی 16 اپریل 2022ء کی اشاعت میں ایک مضمون لکھا ہے ’’دی کشمیر فائیلس پر) جس میں انہوں نے آزاد خیال اور حقوق انسانی کے حامی لوگوں پر بناء سوچے سمجھے شدید تنقید کی۔ انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ اس طرح کی تنقید کے کیا نتائج و اثرات مرتب ہوں گے۔ ابھینو کمار کے مطابق ہندوستان میں سکیولرازم کو اسلامی بنیاد پرستی سے بہت بڑا خطرہ لاحق ہے اور اس کی بدترین مثال تنازعہ کشمیر ہے۔ اپنے مضمون میں ابھینو کمار بڑے جوش و خروش سے فلم ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ کی مدافعت کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ میڈیا اور سوشیل میڈیا میں بہت ہی پرزور انداز طریقے سے پیش کی گئی جسے سری سری روی شنکر سے لے کر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور وزیراعظم نریندر مودی نے نہ صرف پسند کیا بلکہ یہ کہہ کر اس کی تعریف و ستائش کی کہ اس فلم میں حقیقت اور سچائی دکھائی گئی ہے جبکہ دیگر نے جن پر فراخدل آزاد خیال اور سکیولر ہونے کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے، اس فلم کو ایک ایسے ایجنڈہ کے طور پر دیکھا جو ملک میں تخریبی سیاست کو فروغ دے رہی ہے۔ ملک کے سیکولر اور آزاد خیال افراد نے اس بات کیلئے نام نہاد قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں پر یہی الزام عائد کیا کہ یہ جماعتیں اور تنظیمی خفیہ ایجنڈہ رکھتی ہیں جس کا واحد مقصد ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے۔
جہاں تک فلم ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ کا سوال ہے۔ کوئی یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستانی سماج کا ایک بڑا حصہ اس فلم سے کافی متاثر ہوا ہے۔ وہ اس قدر متاثر ہوا کہ مذہبی اقلیت کے تئیں ان کی نفرت مزید بڑھ گئی ہے۔ خود اس فلم کے فلم ساز وویک اگنی ہوتری نے یہ کہا ہے کہ وہ نہ صرف ایک فلم ساز ہیں بلکہ ان کا اپنا ایجنڈہ ہے۔
دوسری طرف دائیں بازو کے آزاد خیال و فراخ دل عناصر فلم کے منفی اثر کو لے کر فکرمند ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ جیسی فلم میں آدھا سچ پیش کیا گیا۔ وادی کشمیر میں جو واقعات پیش آئے، اس کی یکطرفہ عکاسی کی گئی۔ ان واقعات کی غلط تشریح بیان کی گئی اور ابھینو کمار نے اپنے مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا، وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ کشمیر کے موجودہ حالات دراصل اس ریاست کو دی گئی خود مختاری و اختیارات کو سلب کرنے کا نتیجہ ہیں، ان اختیارات کی طمانیت کشمیریوں کو دستور ہند کی دفعہ 370 اور 35A میں فراہم کی گئی۔ یہ علیحدگی پسندی کشمیریت کی بات کرتی ہے اور اس بارے میں کمار سوچتے ہیں کہ یہ صرف ایک تصور ہے اور اس تصور کے اطراف چھوٹ پھیلائی گئی۔ دروغ گوئی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ اگر ابھینو کمار کشمیر کی نوعیت جاننے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں جی ایم ڈی صوفی (کشمیر) یا پھر ممتاز صحافی بلراج پوری کے (کشمیر سورش کی سمت) جیسے تحریری کام سے استفادہ کرنا چاہئے۔
یہ کشمیر ہی تھا جہاں ویدانتا، بدھ ازم اور صوفی روایات ایک منفرد تہذیب کی تخلیق کیلئے متحد ہوئے۔ اس تہذیب کو کشمیریت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا اور سمجھتا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا بالکل غلط اور بغض و جانبداری پر مبنی ہے۔ ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ میں وادی کشمیر اور ہندوستان میں اسلام کے فروغ کے بارے میں جو کچھ بھی دکھایا گیا ہے، وہ حقیقت سے بعید ہے۔ کشمیر میں اسلام صوفی سورڈ سے نہیں پھیلا (جیسا کہ اس فلم میں ایک ڈائیلاگ استعمال کیا گیا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور سارے ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے مظالم اور ذات پات کے امتیاز سے تنگ آکر غیرمسلموں نے دامن اسلام میں پناہ لی۔ ہندوستان میں اسلام بادشاہوں کی تلواروں سے نہیں بلکہ ذات بات کے نام پر برپا کئے جانے والے ظلم و جبر کے نتیجہ میں پھیلا ہے۔ اس ضمن میں سوامی وویکانند لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں تبدیلی مذہب عیسائیوں اور مسلمانوں کے ظلم و جبر کے باعث نہیں ہوا بلکہ اعلیٰ ذات کے ہندوستانیوں کی جانب سے ذات پات کے نام پر کئے گئے مظالم کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہندوؤں نے اپنا مذہب ترک کرتے ہوئے اسلام یا عیسائیت قبول کیا۔ (انہوں نے اس تلخ حقیقت کا اظہار کشمیری پنڈت شنکر لال کو 20 ستمبر 1892ء اور نومبر 1894ء کو ہری داس وٹھل داس دیسائی کو لکھے گئے اپنے مکتوب میں کیا ہے)۔
جہاں تک کشمیریت کا تعلق ہے، کمار سمجھتے ہیں کہ یہ ایک تصور ہے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے نندرشی (نورالدین نورانی یا لال دیڑھ یا کشمیری عوام کی جانب سے منائے جانے والے کھیر بھوانی جیسے تہوار کے بارے میں نہیں سنا ہوگا۔ کمار نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا وہ مشہور بیان بھی سنا ہوگا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے ذریعہ حل کرنے کے خواہاں ہیں۔
کمار اس بات میں جزوی طور پر صحیح ہے کہ 1980ء کے دہے میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی نوعیت میں تبدیلی آئی ہے اور اس کا تعلق پاکستان میں نوجوانوں کی تربیت سے ہے۔ خاص طور پر مدرسوں نے القاعدہ اور طالبان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ دراصل یہ امریکی پراجیکٹ تھا جس پر اس نے اپنے غلام پاکستان کے ذریعہ عمل آوری کروائی۔ یہ وہی عناصر ہیں جو کثیر تعداد میں وادی کشمیر میں دراندازی کی اور تباہی مچائی۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور نیشنل کانفرنس لیڈر (محمد یوسف حلوائی) اور کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ اور کمار نے بھی کشمیری مسلمانوں کو ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے انداز میں پیش کیا جنہیں پاکستان میں تربیت دی گئی۔ پاکستان میں تربیت یافتہ ان عناصر کی اس طرح ذہن سازی کی گئی کہ ان لوگوں نے جہاد کے نام پر ان سے عدم اتفاق کرنے والوں کو کافر قرار دے کر انہیں قتل کرنا شروع کردیا۔ کمار کو یہ بات بھی اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ اب بدقماش عناصر نے جو ہتھیار استعمال کیا ہے، وہ دراصل امریکی پراجیکٹ نے پاکستان کے ذریعہ فراہم کیا تھا۔
بہرحال ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ کے فلمساز نے یہ تسلیم کیا کہ اس کا اپنا ایک جنڈہ ہے۔ اس کیلئے فلم میں جو کچھ بھی پیش کیا گیا ہے وہ سچ ہے۔ اس نے بڑی مکاری سے کشمیری پنڈتوں کے انخلا کیلئے کشمیری مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا۔ اس نے بالواسطہ طور پر کشمیریوں کی حالت زار کیلئے نیشنل کانفرنس اور انڈین نیشنل کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا۔ اس فلم کے فلم ساز کو جگموہن کے بارے میں یاد دلانا ہوگا (جسے بعد میں بی جے پی حکومت کا وزیر بنایا گیا) جگموہن نے ہی وادی سے پنڈتوں کو نکلنے کا راستہ فراہم کیا تھا۔ کمار جیسے لوگوں اور ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ کے فلمساز کو یہ بھی یاد دلانا چاہئے کہ جس وقت کشمیری پنڈتوں نے وادی چھوڑنی شروع کی۔ مرکز میں وی پی سنگھ حکومت تھی اور بی جے پی اس کی تائید و حمایت کررہی تھی۔ حالانکہ اس وقت جو سب سے اچھی بات تھی، وہ یہ تھی کہ مرکزی حکومت کو دہشت گردوں سے نمٹتے ہوئے پنڈتوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہئے تھا۔
’’دی کشمیر فائیلس‘‘ جیسی جھوٹی فلم میں اس بات کو بھی پوری طرح نظرانداز کردیا گیا کہ آج بھی کشمیر میں پنڈتوں کے 800 خاندان مقیم ہیں۔ اس فلم میں اس حقیقت کو بھی مکمل طور پر چھپا گیا کہ 50,000 سے زائد مسلمانوں کو دہشت گرد واقعات کے نتیجہ میں وادی کشمیر کو چھوڑنا پڑا۔ کشمیر میں چلی انتہا پسندی بلکہ دہشت گردی کی لہر میں 700 مسلمان اور 300 پنڈت مارے گئے۔ فلم نے باکس آفس پر اچھا کاروبار کیا ویسے بھی خاص طور پر پچھلے چند دہوں سے اس بارے میں غلط باتیں غلط سماجی نظریات پھیلائے جارہے ہیں اور صرف ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو مختلف طریقوں اور بہانوں سے بدنام کیا جارہا ہے۔ فی الوقت بائیں بازو کے آزاد خیال رہنماوں اور جماعتوں کو بدنام کرنا نام نہاد قوم پرستوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ بہرحال فلم میں مسئلہ کشمیر کے عجیب و غریب حل کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی کہاں سے شروع ہوئی، وہ کیا تاریخی حالات تھے جس کے باعث علیحدگی پسندی نے زور پکڑا ۔ دراصل یہ اس وقت ہوا جب ہندوستان نے کشمیریوں سے مختاری دینے کا جو وعدہ کیا تھا، اسے مسلسل روندنا شروع کیا۔