کشمیر پر نہرو ۔ پٹیل کا موقف یکساں تھا

   

رام پنیانی
حال ہی میں کانگریس رکن پارلیمنٹ اور گاندھی خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کا کشمیر میں اختتام عمل میں آیا اور وادی میں عوام کا اس یاترا کو زبردست اور حوصلہ افزاء ردعمل حاصل ہوا لیکن کچھ ایسے بھی تبصرے نگار اور عناصر تھے جنہوں نے اس موقع کو بھی نہرو پر شدید تنقید کا ذریعہ بنایا اور علاقہ کی موجودہ پیچیدہ صورتحال کیلئے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو ذمہ دار قرار دیا اور دوبارہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے اختلافات سے متعلق دعویٰ کو دہرایا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ کئی مسائل بشمول کشمیر پر پنڈت نہرو اور سردار پٹیل میں اختلافات پائے جاتے تھے۔ اس قسم کی سوچ و فکر رکھنے والے عناصر کا ہمیشہ سے ہی یہ خیال ہے کہ اگر آزاد ہند کے پہلے وزیر داخلہ و نائب وزیراعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل اگر مسئلہ کشمیر سے نمٹتے تو یہ مسئلہ کبھی کا حل ہوگیا ہوتا۔ اس طرح کی سمجھ اور سوچ و فکر نہ صرف پاگل پن ہے بلکہ حقیقت سے بعید ہے۔ اس طرح کے بیانات سے بی جے پی اور آر ایس ایس کو ہی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی دوسری تنظیموں اور جماعتوں کے کشمیر کے پرآشوب ماضی اور دردناک حال پر جو بیانات ہوتے ہیں، ان کا مقصد سنگھ کی سیاسی ونگ ’’بی جے پی‘‘ کو سیاسی فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ جہاں تک دیسی ریاستوں کا سوال ہے، برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے ہندوستان کی آزادی کے بعد انہیں (دیسی ریاستوں کو جہاں راجہ رجواڑوں اور نوابوں کی حکمرانی تھی) ہندوستان یا پاکستان میں ضم ہوجانے یا پھر آزاد رہنے کا اختیار دیا گیا تھا چنانچہ اکثر دیسی ریاستوں نے نوتشکیل شدہ ہندوستان میں ضم ہونے کو ترجیح دی اور بڑی آسانی سے اس میں ضم ہوگئے۔ مسئلہ اس وقت پیش آیا جب حیدرآباد دکن اور کشمیر جیسی دیسی ریاستوں کے ضم ہونے کی بات آئی، ایسے میں حیدرآباد دکن کو (جہاں آصف جاہی حکمرانی تھی) اپنے میں ضم کرنے کیلئے ’’انڈین اسٹیٹ‘‘ نے ’’پولیس ایکشن‘‘ کا سہارا لیا اور اس کارروائی کو ’’آپریشن پولو‘‘ کا نام دیا گیا۔ حیدرآباد کے انضمام کیلئے ’’آپریشن پولو‘‘ کے ذریعہ کامیابی حاصل کی گئی لیکن ریاست جموں و کشمیر کا انضمام بہت پیچیدہ تھا جس کی سب سے اہم وجہ جغرافیائی طور پر پاکستان سے اس کی قربت تھی جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ جموں و کشمیر کی زیادہ تر آبادی مسلمان تھی، پہلے تو کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے آزاد جموں و کشمیر کا مطالبہ کیا یعنی وہ کشمیر کو ہندوستان یا پاکستان میں ضم کرنے کی بجائے آزاد رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک نام نہاد معاہدہ قائمہ (Stand Still Agreement) کی پیشکش کی جس کا مطلب یہی تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں سیاسی جمود ہوگا اور جوں کی توں حالت ہوگی اور اسے ہندوستان و پاکستان کی سہولیات تک رسائی حاصل رہے گی۔ پاکستان نے معاہدہ کو قبول کیا اور اس کا جھنڈا کشمیر کے ڈاک خانوں پر لہرا دیا گیا کیونکہ وہ علاقائی ڈاک کا نظام چلا رہا تھا۔ بھارت نے بنیادی طور پر ایک تیسرے عنصر کی وجہ سے وہ معاہدہ قبول نہیں کیا۔ جموں میں تقریباً 2 لاکھ مسلم مکینوں کا قتل کیا گیا جس سے فرقہ وارانہ تقسیم بڑھتی گئی اور خطہ کی آبادی کو مسلم اکثریت سے ہندو اکثریت میں تبدیل کیا گیا چنانچہ بڑے پیمانے پر برپا کئے گئے تشدد نے ہی کشمیر بحران کو جزوی طور پر جنم دیا۔ ممتاز مبصر و فلم ساز سعید نقوی نے جموں میں ہوئی ہلاکتوں اور قتل و غارت گری کے بارے میں 10 اگست 1948ء کے دوران ’’دی ٹائمس لندن‘‘ میں شائع ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس وقت ایک منظم طریقے سے جموں میں 2,37,000 مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور بے شمار مسلمان اپنی جانیں بچانے کیلئے سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوگئے۔ یہ خون آشامی ڈوگرہ ریاست کی فوج کے ذریعہ کی گئی اور مہاراجہ کی شخصی نگرانی میں ہندوؤں و سکھوں کی مدد سے یہ سب کیا گیا۔ یہ اکتوبر 1947ء کی بات ہے۔ اس کے 5 دن بعد پٹھانوں نے حملہ کیا اور 9 دن بعد مہاراجہ نے جموں و کشمیر کا ہندوستان سے الحاق کیا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں پر تشدد اور ان کے قتل عام کا بہانہ بناکر پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ پاکستانی قبائیل نے 5 دن بعد جموں و کشمیر پر حملہ کیا۔ ریاست جموں و کشمیر اس طرح کے حملے کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اور اس بات کی خواہاں تھی کہ پاکستانی قبائل کی جارحیت روکنے بھارت فوج روانہ کرے۔ اسی پس منظر میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کے معاہدہ پر دستخط کئے حالانکہ اس سے پہلے انہوں نے بھارت کے ساتھ الحاق سے واضح طور پر انکار کردیا تھا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کو جموں و کشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کا اس قدر بھروسہ تھا کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا : ’’کشمیر ان کی جیب میں ایک چیک کی مانند ہے، جسے وہ اپنی مرضی سے کیش کرواسکتے ہیں‘‘۔ بہرحال نیشنل نیشنل کانفرنس جو اس دور میں مسلم کانفرنس کے نام سے جانی جاتی تھی، ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے والد شیخ عبداللہ کی قیادت میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکمرانی اور جاگیردارانہ سماجی ڈھانچہ کے خاتمہ کیلئے ایک جمہوری تحریک شروع کر رکھی تھی۔ آپ کو بتادیں کہ تین اہم ایسی ریاستیں (بشمول جوناگڑھ ایک ہندو اکثریتی ریاست جس کی قیادت ایک مسلم حکمراں کرتے تھے) بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے تیار نہیں تھیں۔ تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سردار پٹیل اس شرط پر کشمیر پاکستان کو جانے دینے کیلئے تیار تھے کہ جوناگڑھ اور حیدرآباد جیسی دیسی ریاستوں کا بھارت کے ساتھ الحاق عمل میں لایا جائے۔ ممتاز مورخ راج موہن گاندھی اپنی کتاب “Patel : A Life” میں لکھتے ہیں کہ پٹیل ایک مثالی سودے کی سوچ رہے تھے۔ اگر محمد علی جناح جوناگڑھ اور حیدرآباد جیسی خوشحال دیسی ریاستوں کا بھارت سے الحاق ہونے دیئے تو وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق پر اعتراض نہیں کرتے۔ راج موہن گاندھی نے اپنی کتاب میں جوناگڑھ کے بہاؤالدین کالج میں جوناگڑھ کے ساتھ الحاق کے بعد کئے گئے سردار پٹیل کے خطاب کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم کشمیر پر راضی ہوں گے، اگر وہ حیدرآباد پر راضی ہوجائیں۔ واضح رہے کہ دیگر دیسی ریاستوں کے برعکس پاکستان، کشمیر میں نہ صرف سرگرم تھا بلکہ جغرافیائی لحاظ سے بہت زیادہ قربت رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پنڈت جواہر لال نہرو کو وزارت خارجہ کا قلمدان بھی سنبھالنا پڑا اور انہیں اس معاملے سے نمٹنا پڑا، تاہم پنڈت نہرو اور پٹیل اس معاملے میں ایک ہی رائے رکھتے تھے اور دونوں ایک ہی صفحہ پر نظر آتے ہیں اور پٹیل کی زیادہ تر توجہ کشمیر سے کہیں زیادہ جوناگڑھ اور حیدرآباد پر تھی۔ آپ کو یہ بھی یاد دلادیں کہ دفعہ 370 پر بات چیت بھی اس وقت ہورہی تھی جب سردار پٹیل وزیر داخلہ تھا اور انہوں نے دفعہ 370 کی مخالفت نہیں کی۔ اس ضمن میں ممتاز مورخ سریناتھ راگھون کا وہ لیکچر پیش کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے ’’کشمیر، دی اسٹیٹ اینڈ دی اسٹیٹس‘‘ کے زیرعنوان دیا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ جس وقت دفعہ 370 متعارف کروائی گئی۔ اس پر غوروخوض کیا گیا تب سردار پٹیل وزیر داخلہ تھے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پٹیل نے دفعہ 370 کی مخالفت کی ہو۔ سردار پٹیل کے خطوط (1945-50)کے مطابق (ان خطوط کو 1974ء میں نوجیون پبلیشنگ ہاؤز احمدآباد شائع کئے تھے) پٹیل نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کو بہت زیادہ منظور کیا تھا۔ انہوں نے 23 فروری 1950ء کو نہرو کو لکھے گئے ایک خط میں کچھ یوں لکھا ’’پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے مخصوص مسائل کے حوالے سے جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی ہے کہ کشمیر کا سوال اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے سامنے ہے۔ تنازعات کے حل کے امکانات بھارت اور پاکستان دونوں کیلئے کھلے ہیں۔ اسے حل کیلئے اقوام متحدہ پر چھوڑنے کے اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر نہرو اور پٹیل میں اختلافات کی باتیں کرنے والے صرف اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنے ایسا کرتے ہیں حالانکہ مسئلہ کشمیر پر نہرو اور پٹیل کا نقطہ نظر ایک ہی تھا اور کشمیر میں بھارت جوڑو یاترا کا خیرمقدم جمہوری اصول بحال کرنے کی خواہش کا ایک اشارہ ہے، ایک موقع ہے۔