غضنفر علی خان
کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مودی حکومت روز اول سے یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وادی میں حالات معمول پرآئیں گے لیکن حکومت کے ذریعہ سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اصل حالات سے عوام کو واقف کروانا نہیں چاہتی۔ اخباری اطلاعات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر میں حالات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد وہاں ایک طرح سے ایمرجنسی نافذ ہوگئی تھی جو اب بھی برقرار ہے۔ کئی اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا سب سے واضح اور بڑا ثبوت اُس وقت ملا جب اپوزیشن پارٹیوں کے ایک وفد کو سری نگر کا دورہ کرنے سے روک دیا گیا۔ اگر کشمیر میں سب کچھ معمول پر ہے تو پھر اپوزیشن کے وفد کو روکنے کا کیا جواز ہے۔ بی جے پی حکومت اگر سمجھتی ہے کہ وہ کشمیر میں سخت پابندیاں عائد کرکے امن بحال کرسکتی ہے تو یہ اُس کی غلط فہمی ہے۔ کشمیر میں دفعہ 370 کے تحت اس کو خصوصی موقف حاصل تھا اور اس دفعہ کے تحت وہاں کی عوام مطمئن بھی تھی۔ یہ ایک علحدہ بحث ہے جس کا اس مضمون میں کوئی اطلاق نہیں ہے کہ منسوخی کا یہ فیصلہ درست ہے یا غلط ، اب جبکہ فیصلہ ہو ہی گیا تو اس کے بعد کے حالات سے ملک اور ساری دنیا کو ناواقف رکھنے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں بعض رکن پارلیمنٹ بھی تھے ، اس کی قیادت کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی کررہے تھے اور اُن کے ساتھ آئے ہوئے لیڈرس کا بھی یہ احساس تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کیلئے جو طریقہ کار اختیار گیا وہ قطعی نامناسب ہے۔ کشمیر میں بنیادی طور پر تین قسم کی فکر تھی جو شاید اب بھی برقرار رہیں گی۔
ایک وہ گروپ ہے جو کشمیر میں پاکستان کے حامیوں پر مشتمل ہے، دوسرا زیادہ طاقتور ہے کشمیر کی ہندوستان سے وابستگی کو ہر اعتبار سے ناگزیر سمجھتا ہے۔ تیسرا وہ جو کشمیر کے آزادانہ موقف کی حمایت کرتا ہے۔ موافق ہندوستان صرف کشمیر پر حکومت کرتے رہے۔ مرحوم شیخ عبداللہ کی تشکیل کردہ پارٹی نیشنل کانفرنس ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔ شیخ عبداللہ مرحوم کے بعد اُن کے صاحبزادے فاروق عبداللہ اور اُن کے پوتے عمر عبداللہ نے بھی کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ مان کر یہاں حکومت کی۔ موافق ہندوستان لیڈروں میں بھلا مفتی سعید کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جو سابق میں کشمیر کے چیف منسٹر رہے اور حال تک اُن کی دختر محبوبہ مفتی بھی کشمیر کی قیادت کرتی رہیں اور حالیہ عرصہ تک چیف منسٹر کے عہدہ پر رہیں، وہ ہندوستان کی حامی تھیں۔ ایک گروپ ایسا ضرور تھا جو کشمیر کی ہندوستان کی علحدگی کو ترجیح دیتا تھا، اس گروپ میں بے شک علحدگی پسندی کیلئے کشمکش کررہا تھا جو ہندوستان کے قومی مفاد کے بالکل برعکس ہے۔ اس گروپ کے لیڈروں نے کبھی کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا حکومتی سطح پر کوئی اثر و رسوخ ہے اور نہ ہی عوام میں پسند کئے جاتے ہیں۔ بے شک یہ گروپ پاکستان کی تائید کرتا ہے اور یہی گروپ کشمیر کے مسئلہ کو اُلجھاتا رہا ہے، یہ گروپ دراصل 27 مختلف چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل تھا اور اس گروپ نے کبھی کشمیر میں امن و امان قائم ہونے نہیں دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں موافق ہندوستان گروپ اور ایک مخالف ہندوستان گروپ حریت کانفرنس کے سبھی قائدین نظربند ہیں۔ ایک بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ موافق ہندوستان گروپ کو کیوں نظربند کیا گیا، کیوں یہ سمجھا جارہا تھا کہ مرکزی حکومت کے فیصلہ کے بعد موافق ہندوستان لیڈرس اپنی مخالف ہندوستان روش پر ہی چلیں گے ، حالانکہ فاروق عبداللہ مسلسل پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہوتے رہے اور ہندوستان کی مرکزی حکومت میں مرکزی وزیر کے عہدہ پر فائز بھی رہے۔ بی جے پی سے اُن کے تعلقات کشیدہ ضرور رہے لیکن کانگریس کے وہ ہمیشہ حامی ہی رہے۔ عمر عبداللہ بھی ہندوستان کی اُس پالیسی کی تائید کرتے رہے جو ہندوستان نے اختیار کی تھی۔ محبوبہ مفتی نے کشمیر کے ہندوستان میں شمولیت کی مخالفت نہیں کی۔
(سلسلہ صفحہ 5 پر)
