کشمیر کے کئی علاقوں میں کرفیو جیسی تحدیدات

,

   

سڑکیں سنسان ، تجارتی ادارے اور دکانیں بند ، ریاست گیر بند کا مسلسل 35واں دن ، کاروبار شدید متاثر ، معمولات مفلوج

سرینگر۔8ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام) کرفیو جیسی تحدیدات کشمیر کے کئی علاقوں میں اتوار کے دن سے ماہ محرم کے سالانہ جلوس کے پیش نظر عائد کردی گئیں ۔ شہر میں بھی محرم کے جلوسوں کے پیش نظر عہدیداروں نے کثیر تعداد میں اجتماعات کے پیش نظر تشدد کے اندیشوں کے تحت امتناعی احکام عائد کردیئے۔ تجارتی مرکز لال چوک اور متصلہ علاقوں کی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مکمل طور پر ناکہ بندی کردی گئی ہے کیونکہ داخلہ کے تمام مقامات پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے ۔ فوجیوں کی کثیر تعداد تعینات کی گئی تھی اور خاردھار تار داخلہ کے مقامات پر بچھادیئے گئے تھے ۔ وادی کشمیر کے کئی علاقوں میں احتیاطی اقدام کے طور پر وادی میں نظم و قانون کی برقراری کیلئے تحدیدات عائد کی گئی تھیں ۔ سرکاری عہدیداروں نے دوبارہ تحدیدات عائد کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے محرم جلوس کے پیش نظر تشدد کے اندیشے سے وادی کشمیر اور دیگر مقامات پر احتیاطی اقدام کے طور پر تحدیدات عائد کی گئی ہیں ۔ صرف عوام جنہیں طبی امداد کی ہنگامی طور پر ضرورت تھی ، رکاوٹیں پار کر کے ادویہ خریدنے کیلئے باہر آنے کی اجازت حاصل کررہے تھے انہیں طبی پاس جاری کئے جارہے تھے ۔ تمام مخدوش علاقوں میں جمعہ کے دن سے ہی احتیاطی اقدامات سخت کردیئے گئے ہیں کیونکہ مفادات حاصلہ نرمی سے فائدہ اٹھاکر مسجدوں اور درگاہوں میں کثیر تعداد میں حاضری دینے والوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاکر احتجاجی مظاہرہ شروع کرسکتے ہیں ۔د ریں اثناء معاملات زندگی وادی کشمیر میں شدید متاثر رہے ۔ کیونکہ وادی میں اکثر دکانیں بند تھیں، آج اتوار کے باوجود مسلسل 35ویں دن بند کی وجہ سے کاروبار متاثر رہے ۔ بازار اور دیگر تجارتی ادارے بند کردیئے گئے جبکہ عوامی ٹرانسپورٹ وادی میں سڑکوں پر نظر نہیں آرہا تھا ۔ بیشتر اعلیٰ سطحی اور دوسرے درجہ کے علحدگی پسند سیاستداں احتیاطی اقدام کے طور پر تحویل میں لے لئے گئے ہیں ۔ اصل دھارے کے قائدین بشمول سابق وزراء فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو یا تو حراست میں لیا گیاہے یا اُن کی قیامگاہوں پر نظربند رکھا گیاہے ۔وادی کشمیر میں 5اگست کو ریاست کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور ہند کی دفعہ 370کی برخواستگی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں لداخ و جموں و کشمیر میں تقسیم کرنے کے مرکزی حکومت کے اقدام کے بعد ریاست گیر سطح پر سخت کشیدگی پائی جاتی ہے ۔