کشمیر ہندوستان اور پاکستان کا باہمی مسئلہ ، افغانستان کا ادعا

   

Ferty9 Clinic

پاکستان کیلئے افغانستان خطرہ نہیں بلکہ اسلام آباد کی ناعاقبت اندیشی افغان استحکام کیلئے تشویشناک ۔ سفیر برائے امریکہ رویا رحمانی کا سخت ردعمل

واشنگٹن ؍ کابل ، 19 اگست (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کی کشمیر کو افغانستان میں امریکہ زیرقیادت امن مساعی سے جوڑنے کی کوششیں ’’ناعاقبت اندیش، غیرمجاز اور غیرذمہ دارانہ‘‘ رہیں، یہ کابل کا نقطہ نظر ہے جبکہ اس نے ملک میں تشدد کو جاری رکھنے اسلام آباد کے ’’ناپاک ارادہ‘‘ کی مذمت بھی کی ہے۔ پاکستان ہوسکتا ہے تازہ ہند۔پاک کشیدگی کے درمیان افغانستان سرحد پر تعینات اپنے دستوں کو کشمیر کی سرحد کو منتقل کرسکتا ہے، اسلام آباد کے سفیر برائے امریکہ اسد مجید خان نے دی نیویارک ٹائمز کو گزشتہ ہفتے یہ بات بتائی تھی، جس پر اخبار نے کہا کہ ایسی صورت میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن بات چیت میں پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ اسد خان کا بیان ہند۔پاک کشیدگی کے درمیان سامنے آیا تھا، جو ہندوستان کی جانب سے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کردینے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہندوستان کے فیصلے پر ردعمل میں پاکستان نے نئی دہلی کے ساتھ سفارتی روابط کی سطح میں کمی لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے انڈین ہائی کمشنر کو خروج کیلئے کہہ دیا۔ پاکستانی قاصد کے ’’گمراہ کن‘‘ بیان کو خارج کرتے ہوئے سفیر افغانستان برائے امریکہ رویا رحمانی نے ادعا کیا کہ اس طرح کے کوئی بھی بیانات جو کشمیر میں اُبھرنے والی صورتحال کو افغان امن مساعی سے جوڑیں، ناعاقبت اندیش، غیرمجاز اور غیرذمہ دارانہ ہیں۔ واشنگٹن میں گزشتہ روز افغان ایمبیسی کے جاری کردہ واضح اور طویل بیان میں رویا رحمانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ افغانستان کو پاکستان کے سفیر برائے امریکہ کے یہ دعوے پر سخت اعتراض ہے کہ کشمیر میں جاری کشیدگی ممکنہ طور پر افغانستان کی امن مساعی کو متاثر کرسکتی ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ’’باہمی مسئلہ‘‘ ہے، رحمانی نے کہا کہ اُن کے ملک کا ماننا ہے کہ پاکستان کی مسئلہ کشمیر کو افغانستان سے قصداً جوڑنے کا مقصد اور زور دینا افغان سرزمین پر پیش آرہے تشدد کو طوالت دینے کی دانستہ کوشش ہے۔ ’’یہ پاکستان کی جانب سے عذرِ لنگ ہے جسے طالبان کے خلاف اپنی بے عملی اور عسکری گروپ کے خلاف فیصلہ کن موقف لینے سے بچنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ رحمانی نے کہا کہ پاکستانی سفیر کا دعویٰ کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کو اپنے دستے افغانستان کے ساتھ متصل اپنی مغربی سرحد سے ہٹا کر ہندوستان کے ساتھ مشرقی سرحد پر تعینات کرنے مجبور ہونا پڑسکتا ہے، گمراہ کن بیان ہے جو غیردرست طور پر باور کرا رہا ہے کہ افغانستان خطرہ برائے پاکستان ہے۔ پاکستان کو افغانستان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ افغان حکومت کو کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ پاکستان دسیوں ہزار ملٹری پرسونل کو اپنی مغربی سرحد پر برقرار رکھے۔ اس کے برعکس افغان استحکام کو بار بار پاکستان نشین، منظورہ اور تائیدی عسکری اور دہشت گرد گروپوں سے خطرہ درپیش رہا ہے۔رحمانی نے کہا کہ یہ تمام گروپ صرف پاکستان حکمرانی والے خطوں سے کام کرتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے افغانستان میں گھسائے جاتے ہیں ۔