کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

   

محمد مبشر الدین خرم
مسلمان ہندستان میں جن چیالنجس اور حالات کا سامنا کر رہے ہیں اس صورتحال میں مسلم نوجوانوں میں سوال کرنے اور اپنے مذہبی و سیاسی تشخص کے تحفظ کے لئے کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اس ملک کی تعمیر وترقی میں مسلمانوں کا بھی اتنا ہی رول ہے جتنا یہاں بسنے والی دیگر اقوام کا ہے بلکہ مسلمانوں نے اس ملک کو تہذیب و تمدن کے علاوہ مساوات کا جو درس دیا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی اس بات کو مسترد کیا جاسکتا ہے کہ اس خطہ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد عدم مساوات کے خاتمہ کا دور شروع ہوا ۔ سرزمین ہند پر اگر مسلم حکمرانوں نے حکومت نہ کی ہوتی تو ایسی صورت میں ہندو طبقات جن معاشرتی تباہیوں کا شکار تھے اس کی دنیا کے کسی ملک میں نظیر نہیں ملتی ۔ مسلمانوں نے اس ملک کی طبقاتی اعتبار سے سب سے بڑی آبادیاں جو ایس سی ‘ ایس ٹی اور بی سی ہیں ان کو مساوات اور انسان کے درمیان ذات پات کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہونے کا درس دیا اسی وجہ سے پچھڑے ہوئے طبقات آج اپنے حق کی بات کر رہے ہیں جبکہ دنیا میں سب سے پہلے عربی کو عجمی ‘ گورے کو کالے پر فوقیت یا فضیلت نہ ہونے کی تعلیم دینے والے نبی ﷺ کے ماننے والوں پر اس سرزمین پر ہی نہیں بلکہ کئی ممالک میں ان کے دین کی وجہ سے ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ہندستانی مسلمانوں کے لئے جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں ان کا مشاہدہ کرنے پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر وہ اب بھی اپنے ماضی کا محاسبہ ‘ اپنے حال پر غور کرتے ہوئے اپنے مستقبل کی حکمت عملی تیار نہیں کرتے ہیں تو ایسی صورت میں انہیں جو کچھ بچارکھا ہے وہ بھی کھونا پڑسکتا ہے بلکہ جو بچا ہوا ہے اسے مصلحت کے نام پر چھوڑنے کی بھی نوبت آسکتی ہے لیکن اس صورتحال سے پناہ مانگنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو صرف تشخص ہی نہیں بلکہ دولت‘ شہرت کے ساتھ عزت و ناموس بھی خطرہ میں پڑجائے گی۔
امت پر مشکل حالات کوئی نئی بات نہیں ہیں اور اس طرح کے حالات میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور جدوجہد کا طریقہ ٔ کار بھی سیرت النبیﷺ میں ملتا ہے اور صبرکے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی صورت میں اللہ کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے لیکن صبر کے نام پر بزدلی اور کم نگاہی رسوائی حرم کا سبب بن سکتی ہے۔ 2014کے بعد سے جو حالات بنائے جا رہے ہیں اور جس انداز میں مسلمانوں کو کمزور اور نحیف ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے مسلم مذہبی ‘ سیاسی اور سماجی قیادت کو امت کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تھی مگر افسوس کہ سیاسی آواز کو بھی بے قدر کرنے اور سازشوں کے الزامات کا سامنا رہا ہے جبکہ مذہبی قیادت سڑکوں سے دور رہنے ‘ مصلیٰ بچھاکر دعاء کرنے اور سازشوں سے چوکنا رہنے کے علاوہ موت کا خوف پیدا کرنے میں مصروف نظرآرہی ہے جبکہ یہ بات ایمان کا جز ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ زندگی ابدی نہیں ہے۔ جہاں تک سماجی قیادت کا تعلق ہے وہ مسلمانو ںکے تعلیمی ‘ معاشی مسائل اور دیگر ابنائے وطن کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرتے ہوئے وقت گذارنے میں مصروف ہے تاکہ سب سے تعلقات بنے رہیں اور انہیں کسی قسم کے قانونی مسائل یا عتاب سلطانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ 2014ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی عتاب سلطانی کوئی نئی بات نہیں تھی جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔
گیان واپی مسئلہ پر جاری مقدمہ بازی اور اس دوران متھرا میں کھدوائی کے لئے عدالت میں داخل کی گئی درخواست کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت بدھ مذہب کے ماننے والوں کی طرح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اشوک سمراٹ کے دور میں بودھ وہاروں کو مندروں میں بدلنے کی تاریخ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندستان دین اسلام کی روشنی سے منور نہیں ہوا تھا ۔ جو نظریہ آمد اسلام سے قبل بدھ مذہب کے ماننے والو ںکو نشانہ بنارہا تھااور بودھ وہار جو کہ بدھ مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ تھیں انہیں مندر میں بدل رہا تھا وہی نظریہ اور لوگ آج مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں لیکن دین اسلام نے مسلمانوں کی جو تربیت کی ہے ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس طرح کے حالات میں انہیں کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے اور کس طرح سے ان حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن ان تعلیمات کو عام کرنے میں کون ناکام ہورہا ہے یا ان تعلیمات کو فراہم کرنے والوں سے کون کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے اس بات سے سب واقف ہیں ۔ حالات سے رخصت ہونے کی کوشش کرنے والوں کو اپنے دلوں میں ٹٹولنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو جانچنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ اس کسوٹی اور پیمانے پر پورے اترتے ہیں جو دین اسلام نے اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھنے والوں کے لئے قرآن مجیدمیں بیان کیا ہے۔
بابری مسجد کے فیصلہ پر ماتم یا اعتراض کے بجائے اس سے سبقحاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقدمہ میں ہونے والی کوتاہیوں کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ بابری مسجد مقدمہ کے دوران جب مندر کے وجود کے سلسلہ میں کھدوائی کی مانگ کی گئی تو اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی آمادگی نے مقدمہ کو کمزور کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس ایم ۔این ۔وینکٹا چلیہ نے 1994میں یہ واضح کردیا تھا کہ کسی بھی ملکیت کا مقدمہ کھدوائی کی بنیاد پر فیصل نہیں کیا جاسکتا ۔ 1992 میں شہادت بابری مسجد کے بعد نرسمہا راؤ نے ایودھیا ایکٹ 1993 منظور کرتے ہوئے مسجد کی جگہ کھدوائی کی راہ ہموار کی تھی لیکن سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ایم۔این وینکٹا چلیہ نے صدرجمہوریہ کی جانب سے اس معاملہ میں طلب کردہ تجویز میں یہ واضح طور پر کہہ دیاتھا کہ دستور میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی بھی ملکیت کا فیصلہ کھدوائی میں ملنے والے آثار کی بنیاد پر کیا جائے اور اب دوبارہ کاشی اور متھرا میں کھدوائی کی بات کہی جا رہی ہے اور عدالت میں درخواستیں داخل کی جا رہی ہیںلیکن اس کے باوجود جسٹس وینکٹا چلیہ کا حوالہ کسی گوشہ سے نہیں دیا جا رہاہے بلکہ مکمل بحث کو مذہبی مقامات کے متعلق 1991 کے قانون تک محدودکرنے کی کوشش کی جار ہی ہے اور مساجد کے منبروں سے مسجد کے تقدس اور اس کی حرمت کے متعلق خطبات پر اکتفاء کیا جا رہاہے حالانکہ وقت خطابات یا اجلاس ‘ کمیٹیوں کی تشکیل یا شعور بیداری کا نہیں ہے بلکہ میدان عمل میں آتے ہوئے نوجوانوں میں جذبۂ جدوجہد پیدا کرنے کا ہے۔ انہیں ان کی تاریخ پر ماتم کرنے کی تعلیم اور انہیں بابری مسجد کا غم نہ بھولنے کی تلقین کے بجائے اپنے حق کے تحفظ کے لئے سر بکف ہونے کے لئے آمادہ کرنے کا وقت ہے۔
بابری مسجد کی شہادت اور مقدمہ کی باریکیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ مسئلہ 1885 سے چلا آرہا تھا لیکن 1992 میں مسجد کی شہادت کے بعد اور اس سے عین قبل جو صورتحال پیدا کی گئی تھی اس میں1990میں شروع ہوئی اڈوانی کی رتھ یاترا‘ 1992میں ہونے والی کارسیوا کے دوران مسجد کی شہادت‘ 1993 میں حکومت کی جانب سے بابری مسجد کی اراضی کو قرق کرنے کا آرڈیننس ‘1994میں اسمٰعیل فاروقی فیصلہ ‘ 2002میں بابری مسجد مقدمہ کی الہ آبادکورٹ میں سماعت کا آغاز‘لبراہن کمیشن کی 2009میں رپورٹ کی پیشکشی ‘ 2010 میں بابری مسجد کی اراضی کو تین حصوں میں منقسم کرنے کافیصلہ ‘2011میں سپریم کورٹ کی جانب سے لکھنؤ بنچ کے فیصلہ پر حکم التواء ‘ 2017میں اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس جگدیش سنگھ کھیھر کی جانب سے عدالت کے باہر مذاکرات کا مشورہ ‘ 2017میں تین ججس پر مشتمل بنچ کی جانب سے مقدمہ کی سماعت کا آغاز اور پھر جولائی 2018میںدوبارہ اسمٰعیل فاروقی فیصلہ کا حوالہ اور اس پر مباحث پھر آخر میں 2019 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ انتہائی اہمیت کے حامل تاریخ ہیں اور اس مقدمہ میں ہونے والی پیشرفت کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاست میں بھی بڑی تبدیلیا آئی ہیں جو کہ ملک کو نفرت کی اس منزل پر پہنچا چکی ہے کہ جہاں اب ایک شخص کو’’ مسلم ہونے کے شبہ‘‘ میں پیٹ کر ہلاک کئے جانے کی خبروں کے بعد بھی ذمہ داران ملت اسلامیہ اطمینان کی نیند سو لیتے ہیں۔مسلمان ہونے کے شبہ میں ایک جین شخص کا پیٹ کر قتل کردیا گیا اور یہ خبریں بھی شہہ سرخیوں میں شائع ہوئی کہ مسلمان ہونے کے شبہ میں قتل کیا گیا۔
بابری مسجد پر ملک کے اکثریتی طبقہ کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے والوں نے صرف شیلا نیاس‘ رتھ یاترا‘ کارسیوا سے ہی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ 2002 میں گجرات فسادات سے جو ماحول تیار ہورہا تھا اسے اپنے حق میں کرنے کے لئے الہ آباد عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع کردی گئی اور 2003 میں ماحول کو مزید سازگار بنانے کے لئے آرکیالوجیکل سروے کا آغاز یقینی بنایا گیا ۔2004 میں انتخابات ہوئے اور رتھ یاترا کے ذریعہ اپنی طاقت میں اضافہ کرنے والوں کو شیلا نیاس کروانے والوں نے شکست دے دی اور 2009 انتخابات کے نتائج کے فوری بعد لبراہن کمیشن کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کردی گئی جو اب تک منظر عام پر نہیں آئی لیکن ان دونوں سیاسی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے دعویداروں کی جانب سے ان کی اس سازش کو محسوس ہی نہیں کیا گیا بلکہ بورڈ کے نمائندوں کی جانب سے سیتا کی رسوئی ‘ رام کے چبوترے اور الہ آباد عدالت کے متوقع فیصلہ پر برقراریٔ امن کی اپیل کے لئے مختلف شہروں کے دورے کئے گئے ۔بابری مسجد کی سازش کو شائد ذمہ داروں نے محسوس نہیںکیا تھا لیکن اب تمام کاروائیاں ہمارے سامنے ہیں تو ایسی صورت میں اُن ہی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے ’رتھ یاترا‘ رائے عامہ ہموار کرنے کے علاوہ اتنی ہی دلچسپی سے مقدمہ لڑنے کی ضرورت ہے جتنی دلچسپی سے اپنی جائیداد بچانے کے لئے لڑا جاتا ہے۔
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی