رامچندر گوہا
پیشہ ور بکواس کرنے والوں کے کچھ خطرات میں سے عام طور پر ایک باعث مسرت و فائدہ بخش پیشہ ور تحائف ہیں جو کسی تقریر یا خطاب کے بعد ملتے ہیں، یہ تحائف بھاری اور بیکار ہوتے ہیں مثال کے طور پر لکڑی کے سانچے کے ساتھ دھاتوں کی پلیٹ پر میزبان ادارہ کا نام اور لوگو کندہ ہوتا ہے، کبھی کبھی وہ تحائف دیکھنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں جیسے گلدستہ‘ حالانکہ بات چیت بنگلور کے علاوہ کسی اور مقام پر ہو تو پھول گھر پہنچنے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔ تین دہوں کے دوران مجھے جو سب سے اچھا تحفہ ملا وہ میرے مادرِ علمی دہلی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے دیا گیا تحفہ تھا۔ یہ بات سال 2000 کی ہے، مجھے یاد نہیں کہ بات چیت کس موضوع پر تھی ( ایسی بھولنے کی بیماری علاقہ کے ساتھ آتی ہے) لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بات چیت ختم ہونے کے بعد مجھے میزبان سے کیا تحفہ ملا وہ دراصل کمارگندھاروا کی موسیقی کا 8 جِلد پر مشتمل ایک سی ڈی سیٹ تھا، اُس تحفہ کا انتخاب بطور خاص انسٹی ٹیوٹ کی ڈائرکٹر پروفیسر انیتا رامپال نے کیا تھا جنہیں یاد ہوگا کہ جب وہ اور میں 1970 کے دہے میں طالب علم تھے تو مجھے کبھی کبھی ان کے عاشق ( بعد میں شوہر ) ونود رائنا کے ساتھ شاستری سنگیت کے پروگرامس میں دیکھا جاتا تھا۔
ایسا ہی ایک موسیقی ریز پروگرام کمار گندھاروا کا تھا ، ان کے ساتھ ان کی اہلیہ وسندھرا کوم کالی بھی تھیں ( جہاں تک مجھے یاد ہے ) منڈی ہاؤس کے قریب FICCI آڈیٹوریم میں اس پروگرم کا اہتمام کیا گیا تھا اور دونوں نے پورے دو گھنٹوں تک کمار جی کی جانب سے کمپوز کردہ بھجنوں کے ساتھ ساتھ موسیقی ریز پروگرام پیش کئے ۔ ان کی جانب سے اپنائے گئے مٹھاس بھرے لوک گیت گاتے رہے، ان کا پرفارمنس جادوئی تھا بالکل جادوئی ! حالانکہ میں آخری صفوں میں سے ایک میں بیٹھا تھا لیکن موسیقی کی شاندار مٹھاس مجھ تک اچھی طرح سے پہنچی۔ انیتا رامپال نے جو سی ڈیز مجھے بطور تحفہ پیش کی تھیں ان میں اس دن کمار گندھاروا کے سنائے یا گائے گئے چند بھجن بھی تھے، ان میں جوڑراگاس کے غیر معمولی مختصر خیال بھی شامل تھے۔ انہوں نے جو جوڑراگ رچے تھے ان میں چند طویلKHAYALS بھی تھے جسے موسیقی سے پُر HAMEER اور شاندار شنکرا اور ان کے ساتھ خاص طور پر جڑی ہوئی بندشیں بھی تھیں جیسے کہ’’ راجن اب کو رے وہ‘‘ بھی راگ نند میں۔ مجھے خاص طور پر پٹ من جاری میں گایا گیا 15 منٹ طویل خیال بہت پسند آیا، وہ ایسا راگ تھا جو ان دنوں شاذ و نادر یا کبھی کبھی ہی بجایا یا گایا جاتا تھا۔ پہلی مرتبہ ان کے حصول کے ایک دہے بعد میں نے ان سی ڈیز کو اپنے گھر میں بار بار سُنا۔ آپ کو بتادوں کہ سال 2010 میں میں نے ایک آئی پیاڈ حاصل کیا اور یہ تمام اس میں منتقل کردیئے۔ اب بالخصوص طویل فاصلے والے فضائی سفر میں خاص طور پر سنا جاسکتا ہے لیکن ان کے پاس سی ڈیز کا ایک بڑا کلکشن تھا ( جس میں مشہور NIRGUN بھجنس بھی شامل تھے ) ان میں وہ ایک گیت شامل نہیں تھا جسے کمار گندھاروا نے خود نہیں لکھا تھا لیکن پھر بھی وہ اس سے بہت متاثر تھے باالفاظ دیگر جُڑے ہوئے تھے اور وہ گیت ’’ جمنا کنارے مورا گاؤں ‘‘ تھا۔میں کمار گندھاروا کے سب ہی نغموں سے جُڑا ہوا ہوں لیکن جمنا کنارے سُرخ رنگ کے ساتھ میرا ایک خاص نجی تعلقِ خاطر ہے۔ میری پیدائش اور پرورش دہرادون کے فاریسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کیمپس میں ہوئی۔ میرے والدین کا گھر کیمپ کے شمالی سرے پر واقع ایک پہاڑی چوٹی پر تھا جہاں سے TONS نامی ایک ندی بہتی دکھائی دیتی تھی۔ مقامی بولی میں TONS کو تانس کہا جاتا تھا۔ تانس دراصل جنوبی اُترکھنڈ میں کئی ندیوں کیلئے استعمال کیا جانے والا نام ہے۔
ویسے بھی FRI میں میرے گھر سے دکھائی دینے والی TONS ندی مغرب کی طرف بہتی ہوئیASAN ندی سے جا ملتی ہے جو کچھ میل دور مغرب میں جمنا ندی سے ملتی ہے اس لئے مجھے تھوڑی سی اُمید ہے کہ میرے بڑھاچڑھا کر اسے پیش کرنے کو معاف کیا جائے گا۔ میں یہ دعویٰ کروں گا کہ جمنا کنارے مورا گاؤں ہے، میرے گاؤں میں اس عظیم اور پیاری ندی کی ایک معاون ندی کے BANKS پر واقع ہے اور خاندان کے ساتھ سکھوں کے مقدس مقام پونٹا صاحب جانے سے ہمیں بہت زیادہ خوشی ہوتی تھی، جہاں سے ہم پہاڑیوں سے میدانوں کی طرف تیزی سے بہتی جمنا ندی کا نظارہ کرتے تھے۔ کمار گندھاروا کا جمنا کنارے کا ورژن یوٹیوب پر آسانی سے دستیاب ہے اور میں نے اسے کسی مشکل میٹنگ میں شرکت سے ٹھیک پہلے سُننا شروع کردیا ہے۔ کبھی کبھی میں باپ کی نہیں بیٹے کی سنتا ہوں۔ مُکل شیوپتر کے جمنا کنارے ورژن میں بھی اتنی ہی کشش ہے حالانکہ دونوں نے اُسے الگ الگ طریقہ سے گایا ہے۔ یہ طویل دھیمہ اور مراقبہ پر مبنی ہے۔ مُکل جی کی موسیقی کا ایک بڑا حصہ یو ٹیوب پر دستیاب ہے یہ ان کی اپنی انوکھی غیرمعمولی و بے نظیر موسیقی ہے ، ایسی موسیقی جس کی مٹھاس کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے ان کی جئے جئے ونتی، ان کی کیدار اور ان کی KHAMAJ بھی بہت پسند ہے۔
جاریہ ماہ کے اوائل میں میں نے کمار گندھاروا کے گائے گئے ’’ جمنا کنارے ‘‘ کو لائیو سُنا جو کمار گندھاروا کی خدا داد صلاحیتوں کی حامل بیٹی کلا پنی کو مکالی نے اپنی آواز میں گائے۔ بنگلور میں ان کا کنسرٹ ( موسیقی ریز پروگرام ) ان کے والد کی صدی تقاریب کا ایک حصہ تھا۔ اُس پروگرام کا آغازکمار جی کی تصاویر کے ایک مختصر سلائیڈ شو سے ہوا جس میں اُن کی زندگی کے مختلف مراحل اور مختلف تناظر میں پیش کی گئیں ان تصاویر میں سے ایک تصویر مجھے سب سے زیادہ متاثر کرگئی جو انہوں نے 1991 میں دھاڑواڑ میں ملک ارجن منصور کے ساتھ لی تھی۔ ملک ارجن اُن گلوکاروں میں سرِ فہرست مانے جاتے تھے جو قدرت معاشرہ کو شاذونادر ہی عطا کرتی ہے۔ اس طرح کی شخصیتیں ممبئی اور کرناٹک میں پیدا ہوئیں اور دھاڑواڑ ممبئی اور کرناٹک علاقہ کا تہذیبی و ثقافتی دارالحکومت ہے۔ کمار گندھاروا اُس نسل میں سب سے کم عمر کے تھے، اُن کے دیگر ارکان یا شخصیتوں میں گنگو بائی ہنگل، بھیم سین جوشی اور بسواراج راج گرو تھے، جب اُن کے دوست اور ساتھی موسیقار بناء اطلاع دیئے ان کے دروازے پر پہنچے ملکارجن جی کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے اّنا ( بڑے بھائی ) سے آخری مرتبہ ملنے آئے ہیں کیونکہ وہ کمارجی سے عمر میں بہت بڑے تھے اور ساتھ ہی بہت زیادہ سگریٹ نوشی کرنے والے تھے۔ جب چند ماہ بعد کمار جی کی موت ہوئی تو ان کے معاصر کو بہت دُکھ ہوا کہ مجھ سے پہلے نوجوان کا دیہانت ہوگیا وہ روپڑے ( اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ہی ملک ارجن جی کی بھی موت ہوگئی )۔
کلا پنی نے بنگلور کنسرٹ کی شروعات اپنے والد کی کمپوز کردہ راگ بھیم پلاسی کی تین کمپوزیشن سے کی، یہ ایک مشکل، بلند پایہ راگ ہے جس کے ساتھ انہوں نے خوب انصاف کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے کمار گندھاروا کی جانب سے ایجاد کردہ جوڑراگوں میں سے ایک راگ شہری کلیان گائی اس کے بعد مدھیہ پردیش کے خشک علاقہ مالوا میں ایک لوگ گیت گایا جہاں کمار گندھاروا جو ممبئی میں تربیت حاصل کرنے والے کنڑیگا تھے۔ خطرناک بیماری کا پتہ چلنے کے بعد چلے گئے تھے۔ جیسے جیسے موسیقی ریز پروگرام آگے بڑھ رہا تھا مجھے اُمید تھی کہ اس میں ’ جمنا کنارے مورا گاؤں ‘ بھی شامل ہوگا۔ جب میں چھوٹاتھا تب میں اپنی فرمائش زور سے کہتا تھا یا کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر بھیجتا تھا حالانکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی پختگی بھی بڑھتی ہے اس لئے میں چُپ رہا ۔ خوشی کی بات ہے کہ کلا پنی نے جو گیت گایا وہ نہ صرف میرے لئے بلکہ اکثر حاضرین کیلئے کمار گندھاروا سے جُڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے والد کے انداز میں’ جمنا کنارے ‘ کو بہت جوش کے ساتھ گایا اور جیسے ہی اس نے گایا میں نے اپنی آنکھیں بند کرلی اور اپنے بچپن میں واپس چلا گیا، جنگلوں اور جمنا کے پانی بھرے راستوں سے ہوتے ہوئے سیر پر۔