2025 خوش آمدید … کیا اچھے دن آئیں گے ؟
سلمان رشدی پر مہربانی … مسلمانوں کی دل شکنی
رشیدالدین
خوش آمدید 2025 ۔ انسان بنیادی طور پر خوش فہم واقع ہوا ہے۔ مصیبت اور غم کو بھلاکر اچھے دن کی امید سے وابستہ ہوجانے میں دیر نہیں لگتی۔ ویسے بھی انسان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے اور برے دنوں کو بھول جانا دراصل نظام قدرت کا حصہ ہے کیونکہ اگر غم اور برے حالات ذہن و دماغ پر چھائے رہیں تو انسان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ہر غم اور زخم مندمل ہوجاتا ہے اور انسان نئی منزل کی تلاش میں پیش قدمی کرتے ہوئے یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی غم اور مصیبت دیرپا نہیں ہوتی۔ ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘ کہ جذبہ کے ساتھ انسان بہتری اور کامیابی کی امید میں تلخ تجربات کو برا خواب سمجھ کر بھول جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان میں برے حالات کو بھلانے کی طاقت نہ دیتا تو شائد دنیا کی ترقی منجمد ہوجاتی اور ہر کسی کی زندگی میں سکوت طاری رہتا۔ دنیا کی طرح ہندوستان کی عوام بھی 2024 کو الوداع کہتے ہوئے 2025 کا استقبال کر رہے ہیں۔ 2024 میں عوام نے خوشحالی اور ترقی کے خواب سجائے تھے لیکن غریب اور متوسط طبقات کو مایوسی ہاتھ لگی۔ ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو 2024 بی جے پی اور سنگھ پریوار کیلئے مودی کے تیسری مرتبہ اقتدار کا سال ثابت ہوا لیکن تیسری مرتبہ کامیابی ادھوری رہی۔ بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں اکثریت سے محروم ہوگئی اور حلیفوں کی بیساکھیوں پر حکومت تشکیل دی گئی۔ مخلوط حکومت کے اعتبار سے اسے مستحکم اور مضبوط نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہر لمحہ خطرہ کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ سال 2024 کانگریس زیر قیادت انڈیا الائنس کیلئے مکمل نہ سہی جزوی طور پر خوشخبری کا سال رہا۔ ایک طرف بی جے پی اکثریت سے محروم ہوئی تو دوسری طرف اپوزیشن کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ کانگریس کو بھلے ہی اقتدار حاصل نہ ہوا لیکن مضبوط اپوزیشن کے سبب بی جے پی آئندہ پانچ برسوں میں من مانی نہیں کر پائے گی۔ کانگریس کو بھلے ہی وزارت عظمیٰ حاصل نہیں ہوئی لیکن پرینکا گاندھی کا پارلیمنٹ میں قدم رکھنا مودی حکومت کے ہوش اڑانے کیلئے کافی ہے۔ انتخابی سیاست سے دور رہ کر کانگریس کی مدد کرنے والی پرینکا گاندھی کے لوک سبھا میں داخلہ سے راہول گاندھی کو طاقت ملے گی۔ راہول گاندھی کی صلاحیتوں پر سوال کرنے والی بی جے پی کے لئے اندرا گاندھی کی ہم شکل پرینکا گاندھی نئے چیلنج کے طور پر ابھری ہیں۔ سیاسی مبصرین کو امید ہے کہ 2025 بی جے پی کے لئے مہنگا ثابت ہوگا کیونکہ بھائی کی مدد کیلئے بہن میدان میں آچکی ہے۔ سیاسی اعتبار سے گزشتہ سال بی جے پی کے مجموعی غلبہ کا سال ثابت ہوا۔ لوک سبھا میں کامیابی کے بعد ریاستوں میں اقتدار کی برقراری میں بی جے پی کامیاب رہی۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا کے نتائج کانگریس کی توقعات کے برخلاف رہے جس کے لئے الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ۔ 2024 میں عام آدمی کے مسائل جوں کا توں برقرار ہیں۔ بیروزگاری ، مہنگائی اور صحت جیسے بنیادی شعبہ جات میں عام آدمی کو کوئی راحت نہیں ملی۔ بیروزگاری میں اضافہ کا رجحان برقرار ہے۔ مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقات کی زندگی کو امتحان بنادیا ہے ۔ صحت کے شعبہ میں علاج دن بہ دن مہنگا ہوچکا ہے اور سرکاری سطح پر موثر علاج کا کوئی نظم نہیں ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے مسائل میں عوام الجھے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے 2014 میں اچھے دن کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا تھا لیکن 10 برسوں کے گزرنے کے باوجود اچھے دنوں کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ 100 دن میں مہنگائی پر قابو پانے کا خواب دکھانے والی مودی حکومت نے ہر سال عوام پر بوجھ میں اضافہ کیا ہے ۔ کبھی ٹیکس تو کبھی جی ایس ٹی کے نام پر متوسط طبقات کی آمدنی کو متاثر کردیا گیا۔ 2024 میں نئے ٹیکس قواعد لاگو کئے گئے ، حالانکہ خاتون وزیر فینانس سے عوام کو کافی امیدیں تھیں۔ جس خاتون نے کبھی گھر کے کچن کی ذمہ داری نہ سنبھالی ہو، ان سے اچھے دن کی امید کرنا فضول ہے۔ روزگار کی فراہمی کے بجائے قومی سطح کے عوامی اداروں کو اڈانی ، امبانی اور دوسرے صنعتی گھرانوں کے حوالے کرتے ہوئے خانگیانے کے عمل کے ذریعہ برسر خدمت ملازمین کو بیروزگار کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیر فینانس دونوں عام آدمی کی ضرورتوں اور گھر گرہستی سے واقف نہیں ہیں۔ 2024 میں بی جے پی اور سنگھ پر یوار کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ہندوتوا ایجنڈہ برقرار رہا اور تیسری بار اقتدار کے بعد جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں بے قابو دکھائی دے رہی ہیں۔ 10 برسوں تک جس طرح ذہنوں میں نفرت کا زہر گھول دیا گیا ، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ نفرت کے سوداگر بی جے پی اور آر ایس ایس کے قابو میں نہیں ہیں۔ ہجومی تشدد کے علاوہ مسلمانوں کی تجارت کو نشانہ بناکر ان کی معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ ٹرین کا سفر بھی اب محفوظ نہیں رہا۔ حملوں اور دھمکیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی منصوبہ بندی ہے تاکہ مسلمان خود کو برابر کا شہری نہیں بلکہ دوسرے درجہ کا شہری تسلیم کرلیں۔
سال 2024 میں عبادتگاہوں کے خلاف فرقہ پرستوں کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مساجد سے لے کر درگاہیں بھی اب محفوظ نہیں رہیں۔ کاشی اور متھرا کی مسجد اور عیدگاہ کا تنازعہ جاری تھا کہ 2024 میں سنبھل کی جامع مسجد اور اجمیر شریف درگاہ میں مندر کی تلاش شروع کردی گئی۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کی تھی جس کے جواب میں سنگھ پریوار نے ’’بھارت کھودو‘‘ مہم شروع کردی ہے۔ ہر مسجد اور درگاہ کے نیچے مندروں کی تلاش شروع کی گئی اور افسوس کہ مقامی عدالتوں نے درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے ان حرکتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ آخر کار سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور مساجد کے سروے کی اجازت کے احکامات پر روک لگادی گئی۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیاں جنون کی حد تک پہنچ چکی ہیں اور اس مرحلہ پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے مشورے بے اثر دکھائی دے رہے ہیں۔ 2024 میں موہن بھاگوت میں تبدیلی دیکھی گئی۔ ایک طرف وہ نریندر مودی سے ناراض ہیں تو دوسری طرف مساجد میں مندروں کی تلاش کو بند کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے موہن بھاگوت نے سنگھ پریوار کی مخالفت مول لی ہے۔ عام طور پر موہن بھاگوت کا مشورہ احکام تصور کیا جاتا تھا لیکن اب آر ایس ایس کے ترجمان اخبار نے خود بھاگوت کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جارحانہ فرقہ پرست عناصر مودی کی تیسری میعاد میں بھی بھارت کھودو مہم جاری رکھیں گے۔ ہندوستان میں نت نئے انداز سے مسلمانوں کی دل آزاری کی ذمہ دار مودی حکومت نے 2024 کے اختتام پر مسلمانوں کو ایک نیا زخم دیا ہے۔ ملعون سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی کلمات‘‘ پر پابندی ختم کرتے ہوئے دوبارہ اس کی فروخت کی راہ ہموار کردی ہے۔ 40 سال تک ہندوستان میں سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی جاری رہی لیکن عدالت کی آڑ میں مودی حکومت نے کتاب کے دوبارہ سرکولیشن کی راہ ہموار کردی تاکہ مسلمانوں کو نئے سال کے آغاز سے پہلے نیا زخم دیا جائے۔ نریندر مودی نے ایک طرف مسلمانوں کی دل آزاری کی تو دوسری طرف مخالف مسلم و اسلام طاقتوں کو نئے سال کا تحفہ دیا ہے۔ ستمبر 1988 میں سلمان رشدی کی کتاب منظر عام پر آئی تھی جس کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے 5 اکتوبر 1988 کو شیطانی کلمات پر پابندی عائد کردی۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں لیکن پابندی برقرار رہی۔ عدالت میں پابندی کے خلاف درخواست پیش ہوئی تو حکومت کی جانب سے 1988 میں عائد کردہ پابندی کا نوٹفیکیشن اور وجوہات داخل نہیں کیں جس پر عدالت نے پابندی کو ختم کرنے کی ہدایت دی۔ سلمان رشدی کی کتاب پر کئی ممالک میں پابندی برقرار ہے لیکن نریندر مودی حکومت کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور میں مسلمان مجموعی طور پر محفوظ تھے لیکن مودی حکومت کے آ غاز کے ساتھ ہی مسلمانوں کا چین و سکون حرام کرنے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ہندوستان مخالف مسلم اور اسلام عناصر کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش کی ملعون تسلیمہ نسرین کو ہندوستان میں پناہ دی گئی ہے اور وہ اپنی قید کی زندگی کے باوجود مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہی ہے۔ تسلیمہ نسرین کا فتنہ ہندوستان میں باقی تھا کہ پاکستان کے متنازعہ رائٹر طارق فتح کو ہندوستان میں پناہ دی گئی تاکہ مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ جاری رہے۔ اب جبکہ سلمان رشدی کی کتاب کی فروخت کا آغاز ہوچکا ہے، بعض آزاد ذہن رائیٹرس اظہار خیال کی آزادی کے نام پر حکومت کے فیصلہ کی تائید کر رہے ہیں۔ دستور پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی کو حقیقی معنوں میں اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنا چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو فوری متنازعہ کتاب پر دوبارہ پابندی عائد کرنی چاہئے کیونکہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن ناموس رسالتؐ میں کسی گستاخی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ سال نو پر نواز دیوبندی نے کیا خوب کہا ہے ؎
کمرہ کا کیلنڈر تو بدل جاتا ہے ہر سال
اب کے میرے حالات بدل دے میرے مولیٰ