کملا ہیرس اور لو جہاد کے خلاف ہندوستان کے قوانین میں مماثلت !

   

امریکی نائب صدر کے والدین ٹاملناڈو کی شاملا گوپالن اور جمائیکا کے ڈونالڈ ہیرس کی شادی امریکہ کے قانون کے مغائر تھی؟

واشنگٹن: ہندوستان اور امریکہ میں بعض قوانین اور روایت اور قواعد کے اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی شکست کے بعد جارجیا کے 6 جنور ی کو ہونے والے سنیٹ کے نتائج پر کیا اثر پڑے گا، اس کا انتظار ہے لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان سیاسی تنازعہ پیدا کرنے کی یکساں مماثلت پائی جاتی ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے طرز حکمرانی پر نظر رکھنے والوں کو اندازہ ہے کہ یہ دونوں اپنی دنیا میں مست ہیں۔ کیمروں کے سامنے ڈرامہ بازی کرنا ان کی عادت ہے۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تمام چیزیں یکساں بھی نہیں ہے۔ تاہم یہ امریکہ کے ماضی کی روایت پر قوانین اور آج کے مودی حکومت لو جہاد کے خلاف قوانین میں مماثلت دیکھی جاتی ہے۔ اس زمانے میں امریکہ کے کم از کم 16 ریاستوں میں کوئی بھی شخص 1967 ء تک کسی بھی نسل کی لڑکی یا لڑکے سے قانونی طور پر شادی نہیں کرسکتا تھا لیکن جب امریکی سپریم کورٹ نے اس نام نہاد مخالف نسل قوانین کو غیر دستوری قرار دیا تو جنس اور نسل پرستی کی امتیازات ختم ہوگئے ۔ 1861 سے 1865 کے درمیان خانہ جنگی کے دوران کئی شہریوں کو غلام بنادیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ غلاموں کو آزاد کیا گیا تو یہ لوگ بین نسلی شادیاں کریں گے۔ کیلیفورنیا بھی ان 16 ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں نسلی شادیوں پر پابندی تھی۔ ٹاملناڈو کی شاملا گوپالن 1958 ء میں امریکہ منتقل ہوئیںلیکن وہ ڈونالڈہیرس کے ساتھ شادی نہیں کرسکی۔ ڈونالڈ ہیرس 1963 ء میں جمائیکا سے امریکہ آئے تھے لیکن یہ معاملہ ایسا نہیںہے۔ ان دونوں نے شادی کرلی اور 1964 ء میں کملا ہیرس پیدا ہوئیں۔ اب یہی کملا ہیرس امریکہ کی نائب صدر کی حیثیت سے حلف لینے والی ہیں۔ کئی دہوں پہلے امریکہ میں بڑے پیمانہ پر یہ دیکھا جارہا تھا کہ افریقی امریکن مرد سفید فام خواتین سے شادی کرنے کے خواہاں تھے لیکن حقیقت یہ بیان کی جاتی ہے کہ مرد غلاموں کو زبردستی سیاہ فام غلام خواتین سے شادی کروائی جاتی۔بعد ازاں ان سے پیدا ہونے والے بچے امریکہ میں سانولے(گندومی) شہری کہلائے جانے لگے۔ہندوستان کے لو جہاد قانون بھی امریکہ کا برسوں پرانے قانون کا عکس ہے۔ اب امریکہ میں یہ قانون رائج نہیں ہے۔