کم عمر طلبہ کیلئے کئی گھنٹے آن لائن کلاسیس پر ہائی کورٹ کی برہمی

   

حکومت سے وضاحت طلبی، طلبہ کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت متاثر ہونے کا اندیشہ
حیدرآباد ۔ تلنگانہ ہائیکورٹ نے اسکولوں میں آن لائن کلاسیس اور سرپرستوں سے فیس کے مطالبہ کا سختی سے نوٹ لیا اور اس سلسلہ میں حکومت سے رپورٹ طلب کی گئی۔ ہائی کورٹ نے کئی گھنٹوں تک آن لائن کلاسیس کی اجازت دیئے جانے پر سوال اٹھائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ چھوٹے کلاسیس کے بچوں کی جانب سے کمپیوٹرس ، لیاپ ٹاپ، اسمارٹ فون اور ٹیاب کے زائد استعمال کی صورت میں ان کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ آن لائن کلاسیس کے انعقاد کے سلسلہ میں تاحال کچھ فیصلہ نہیں کیا گیا۔ کئی اسکول آن کلاسیس کا گھنٹوں اہتمام کررہے ہیں اور پانچویں جماعت تک آن لائن کلاسیس لی جارہی ہیں۔ درخواست گذار نے شکایت کی کہ آن لائن کلاسیس کے نام پر سرپرستوں سے فیس کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ فیس کی عدم ادائیگی کی صورت میں طلبہ کو کلاسیس میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔ چیف جسٹس راگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس وجئے سین ریڈی پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے ریمارک کیا کہ یہ صورتحال کیوں ہے اور ان کی نگرانی کرنے والی کون سی اتھارٹی ہے۔ حیدرآباد پیرنٹس اسوسی ایشن کی جانب سے مفاد عامہ کی درخواست دائر کی گئی۔ جسٹس وجئے سین ریڈی نے بعض کارپوریٹ اسکولوں کی کارکردگی پر ناراضگی جتائی اور کہا کہ چار تا پانچ گھنٹے کلاسیس لی جارہی ہیں۔ انہوں نے خانگی اسکولوں کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ سے سوال کیا کہ فزیکل ایکٹویٹی کے تحت اسکولوں کا کیا موقف ہے۔ حکومت کے وکیل نے کہا کہ تلنگانہ کابینہ نے آن لائن کلاسیس کے سلسلہ میں فیصلہ کیا ہے اور جلد باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا جائیگا۔ بنچ نے آن لائن کلاسیس کے مسئلہ پر حکومت سے واضح موقف اختیار کرنے کی خواہش کی اور کہا کہ حکومت کو تضاد بیانی سے گریز کرنا چاہیئے۔ عدالت نے کہا کہ پہلی تا پانچویں جماعت کے بچوں کو چار گھنٹوں تک مسلسل اسکرین کے سامنے رکھنا ان کی صحت کیلئے ٹھیک نہیں ۔ سی بی ایس ای کے وکیل نے اپنا موقف ظاہر کرنے کیلئے دو ہفتوں کا وقف مانگا ہے۔ اس معاملہ کی آئندہ سماعت 27 اگسٹ تک ملتوی کی گئی۔