کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے سے متعلق جی او کو ہائی کورٹ نے کالعدم کردیا

   

سابق بی آر ایس دور حکومت میں جی او جاری کیا گیا تھا، پہلے سے باقاعدہ بنائے گئے ملازمین برقرار رہیں گے
حیدرآباد۔/19 نومبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ ہائی کورٹ نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے سے متعلق جاری کردہ جی او نمبر 16 کو کالعدم کردیا ہے۔ عدالت نے سیکشن 10 کے تحت جاری کردہ جی او 16 کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم کردیا۔ سابق بی آر ایس حکومت نے ڈگری، جونیر کالجس اور پالی ٹیکنک میں کنٹراکٹ پر خدمات انجام دینے والے لیکچررس کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کیلئے احکامات جاری کئے تھے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ قواعد کے برخلاف کنٹراکٹ ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تلنگانہ کے بیروزگار نوجوانوں کی جانب سے جی او نمبر 16 کو چیلنج کیا گیا۔ درخواست گذاروں نے عدالت کو بتایا کہ کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے سابق حکومت نے فیصلہ کیا تھا۔ درخواست گذار کے وکیل کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے جی او 16 کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے واضح کیا کہ جی او 16 کے تحت جن لیکچررس کی خدمات کو باقاعدہ بنایا گیا تھا ان کی خدمات کو برقرار رکھا جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ اب جو بھی تقررات کئے جائیں وہ قانون کے مطابق ہونے چاہیئے۔ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی کہ کنٹراکٹ ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کے بجائے مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کیلئے نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور اسی کے مطابق تقررات عمل میں لائے جائیں۔ ریاست میں جملہ 40 سرکاری محکمہ جات میں 5544 کنٹراکٹ ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بناتے ہوئے بی آر ایس حکومت نے احکامات جاری کئے تھے ان میں 2909 جونیر لیکچررس ، 184 جونیر لیکچررس ( ووکیشنل )، 390 پالی ٹیکنک لیکچررس، 270 ڈگری لیکچررس اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں 131 اٹینڈرس شامل ہیں۔ محکمہ صحت میں 837 ہیلت ورکرس، 179 لیب ٹیکنیشن اور 158 فارماسسٹ کے علاوہ 230 اسسٹنٹ ٹریننگ عہدیدار شامل ہیں۔ تلنگانہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ دوررس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ حکومت کو کنٹراکٹ ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے میں ہائی کورٹ کے احکامات اہم رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ مختلف سرکاری محکمہ جات میں موجود کنٹراکٹ ملازمین نے فیصلہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔1