کنگنا رناوت : کب اور کیسے ہندوستان کو ملی آزادی

   

رام پنیانی
ہماری ملک کی جدوجہد آزادی اور اس آزادی کو ہم نے کیسے حاصل کیا، یا ہمیں کیسے ملی، اس بارے میں نسلی قوم پرستی اور انتہائی جارحانہ انداز میں بیانات جاری کررہی ہے۔ جدوجہد آزادی اور آزادی کو موجودہ حالات میں بڑھتی مذہبی قوم پرستی کیلئے موزوں شکل دی جارہی ہے اور اس کا رخ مذہبی قوم پرستی کی جانب موڑنے کی کوششیں شدت اختیار کرگئی ہیں۔ تاحال فرقہ پرستی کو ہم بلاشک و شبہ بالخصوص قرون وسطیٰ کی تاریخ کا ویژن کہہ سکتے ہیں۔ اس میں اب ایک اور نئے رجحان کا اضافہ ہوا ہے۔ نسلی قوم پرست اور ان کے حامی جدوجہد آزادی سے متعلق جو بیانات جاری کررہے ہیں، جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں، وہ اپنی منشاء و مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر یا تاریخ کو مسخ کرکے پیش کررہے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگوں کو ہیرو قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں، جنہوں نے ہندوستانیوں کے ایک قوم اور ایک ملک بننے کے عمل اور انگریز سامراج کے شکنجے سے ملک کو آزاد کرانے کی شروع کردہ تحریک سے دور رکھا تھا۔
کنگنا رناوت کا نام آج کل چرچہ میں ہے۔ ان کا جھکاؤ دائیں بازو کی نسلی قوم پرستی کے حامیوں کے سمت بہت زیادہ ہے اور ان کے ذہن و خیال پر اس کی حقیقت درج ہے۔ کنگنا رناوت اس قسم کے بیانات جاری کررہی ہیں، جو منافرت پر مبنی ہیں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کنگنا رناوت نے یہ کہہ کر سنگھ پریوار بالخصوص بی جے پی قائدین بشمول وزیراعظم، وزیر داخلہ کے دل جیتنے کی کوشش کی کہ ملک کو حقیقی آزادی تو 2014ء میں اس وقت ملی، جب وزیراعظم نریندر مودی اقتدار پر آئے، کنگنا نے 15 اگست 1947ء کو حاصل ہوئی ملک کی آزادی کو ’’بھیک‘‘ سے تعبیر کیا۔ ان کا اس طرح کا بیان نہ صرف ہندوستان اور اس کے ملک اور قوم بننے سے متعلق عمل اور کئی دہوں تک جاری جدوجہد آزادی کے بارے میں ان کی معلومات کی سطح پر سوال ہی نہیں اُٹھاتے بلکہ ان کے بیانات سے یہ بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ دراصل یہ بیانات جان بوجھ کر منظر عام پر لائے جارہے ہیں۔ اگرچہ پچھلے چند دہوں سے اس طرح کے بیانات آرہے تھے لیکن وہ یکا دکا ہوا کرتے تھے، تاہم پچھلے چند برسوں سے اس قسم کے بیانات مسلسل آرہے ہیں۔ کنگنا نے 2014ء میں ’’حقیقی آزادی‘‘ ملنے کے بارے میں جو بیان دیا ہے، وہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ 2014ء میں جب مودی اقتدار میں آئے تھے تب انہوں نے کہا تھا کہ آج 1200 سالہ غلامی اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ ان کا مطلب یہی تھا کہ نہ صرف انگریز سامراج کی غلامی بلکہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں مسلم بادشاہوں کی حکمرانی بھی ایک غلامی کا دور تھا۔ اور اب ہندو قوم پرستی کو بالا دستی حاصل ہوئی ہے یا وہ واپس آئی ہے۔ اگر وزیراعظم کے اس بیان کو اور کنگنا کے بیان کو دیکھا جائے تو زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ایک بات ضرور ہے کہ مذہبی قوم پرست جدوجہد آزادی کا حصہ نہیں تھے لیکن خود کو قوم پرست ثابت کرنے کیلئے وہ مختلف سطحوں پر کام کرتے رہے اور کررہے ہیں۔ ایک مرحلے پر ان لوگوں نے یہ کہہ کر خود کو جدوجہد آزادی کا حصہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کو آر ایس ایس کی شمولیت کے باعث استحکام حاصل ہوا تھا۔ یہ بات آر ایس ایس کے ایک نظریہ ساز راکیش سنہا نے کہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کا آغاز بہادر شاہ ظفر کی زیرقیادت پہلی جنگ آزادی سے ہوچکا تھا۔ اس طرح انقلابی تحریکوں نے بھی آزادی کے حصول میں اہم کردار ادا کیا۔ اس معاملے میں انوشیلن سمیتی اور ہندوستان سوشلسٹ ری پبلیکن اسوسی ایشن سے لے کر سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج اور 1946ء رائل انڈین نیوی کی بغاوت سب کا کسی نہ کسی طرح تحریک آزادی میں حصہ رہا اور یہ بھی جدوجہد آزادی کا تسلسل رہے۔ یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تحریک آزادی میں گاندھی جی کی زیرقیادت جو تحریک چلائی گئی ، اس نے ہندوستان میں انگریز سامراج کے خلاف عوام کو آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا اور یہ سکھایا کہ انگریزوں کے خلاف کیسے نڈر اور بے باکی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ گاندھی جی کی زیرقیادت تحریک آزادی نے جو اصول عوام کو دیئے ، بعد میں وہی اصول ہندوستانی دستور کا حصہ بنیں اور سب سے اچھی بات یہ رہی کہ ہندوستان کی تحریک آزادی کو دنیا کی سب سے بڑی عوامی تحریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، لیکن دائیں بازو کی نسل پرست و قوم پرست تنظیمیں جان بوجھ کر آزادی کی اس تحریک کے بارے میں حقیقت واضح نہیں کرسکتے حالانکہ وہ اچھی طرح حقیقت سے واقف ہیں۔ سب سے اہم بات یہ رہی کہ گاندھی، نہرو، پٹیل، مولانا آزاد اور ان کے دیگر رفقاء ، اکثر انقلابی قائدین (سوریہ سین، بھگت سنگھ) بھی مشمولیاتی قوم پرستی پر یقین رکھتے تھے۔ ساورکر بھی اپنے ابتدائی مراحل میں انگریز مخالف انقلابی تھا، لیکن وہ فرقہ پرستی کے جال میں پھنس گیا۔ ایسی فرقہ پرستی جو مذہبی اقلیتوں کو خارج کرنے پر مبنی تھی۔ خود کنگنا رناوت نے رانی لکشمی بائی کا رول ادا کیا اور اس رول سے متاثر بھی رہی۔ اس کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ ’’میں جانتی ہوں لیکن 1947ء میں کونسی جنگ لڑی گئی ، اس بارے میں مجھے پتہ نہیں۔ کیا کوئی مجھے اس بارے میں سمجھا سکتا ہے۔ اگر وہ یہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا، تو میںاپنے پدم شری ایوارڈ سے دستبردار ہوجاؤں گی اور معذرت خواہی کروں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ کنگنا رناوت یہ سمجھتی ہیں کہ آزادی جنگ کے ذریعہ جیتی گئی ۔ 1947ء میں تو کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ ایسے میں کوئی بھی کنگنا رناوت سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ جنگ لڑی ہے یا جنگ جیتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ ساری ہندوستانی قوم نے متحد ہوکر انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گاندھی جی کی زیرقیادت تحریک سیول نافرمانی ، تحریک عدم تعاون (1920ء اور 1930ء ) اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک (1942ء) نے تمام ہندوستانیوں کو اخوت کے بندھن میں باندھا اور مساوات کے ساتھ ساتھ حصول آزادی کی خواہش پر مبنی اقدار کے ساتھ ہمیں آگے بڑھایا۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ خود بی جے پی کے لیڈر ورون گاندھی لکھتے ہیں کہ بعض مرتبہ گاندھی جی کے عزم و حوصلے اور پابند عہد ہونے اور قربانیوں کی تضحیک کی جاتی ہے تو کبھی ان کے قاتل کا احترام کیا جاتا ہے۔ آخر ہندوستان میں کیا ہورہا ہے؟ مجاہدین آزادی کی توہین کی جارہی ہے، میں اسے کیا کہوں پاگل پن یا غداری، کون اس کا جواب دے گا۔