کوئی مملکت فلسطین نہیں رہے گی ۔ یہ زمین ہماری ہے ۔ نتن یاہو کا اعلان

,

   

مغربی کنارہ میں بڑے نوآبادیاتی پراجیکٹ کا آغاز ۔ شہر کی آبادی کو دوگنی کرنے کا بھی اعلان ۔ تقریب سے خطاب

یروشلم 11 ستمبر ( ایجنسیز ) وزیر اعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو نے آج اعلان کیا کہ اب کوئی فلسطینی مملکت نہیں رہے گی ۔ انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارہ میں بڑے نوآبادیاتی پراجیکٹ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔ نتن یاہو نے کہا کہ ہم اپنے اس وعدہ کو پورا کرنے جا رہے ہیں کہ اب کوئی فلسطینی مملکت نہیں رہے گی ۔ یہ جگہ ہماری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ورثہ ‘ اپنی زمین اور اپنی سکیوریٹی کی حفاظت کریں گے ۔ ہم شہر کی آبادی کو دوگنی کرنے اقدامات کر رہے ہیں۔ اس تقریب کا نتن یاہو کے دفتر نے سوشیل میڈیا پر لائیو ٹیلیکاسٹ کیا ۔ اسرائیل طویل عرصہ سے چاہتا ہے کہ 12 مربع کیلومیٹر کے علاقہ میں یہودی نوآبادی بسائی جائے ۔ تاہم اس منصوبہ کو بین الاقوامی مخالفت کی وجہ سے کئی برسوں سے موخر کرنا پڑا تھا ۔ یہ مقام یروشلم اور اسرائیلی آبادی مالے اڈومیم کے درمیان واقع ہے ۔ گذشتہ مہینے اسرائیل کے انتہاء پسند وزیر فینانس بیزالیل سموٹرچ نے بھی اس انتہائی حساس علاقہ میں 3,400 مکانات تعمیر کرنے کی وکالت کی تھی ۔ ان کے اعلان کی مذمت کی گئی تھی ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گواٹیرس نے کہا کہ اس نوآبادی کے قیام سے مغربی کنارہ دو حصوں میں بٹ جائے گا اور ایک فلسطینی مملکت کیلئے وجود کا خطرہ پیدا ہوجائے گا ۔ مغربی کنارہ میں اسرائیل کی تمام بستیوں کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے ۔ اس علاقہ پر یہودی مملکت نے 1967 میں قبضہ کیا تھا ۔ اسرائیل نے مملکت فلسطین کا وجود ہی ختم کردینے کا ایسے وقت میں اعلان کیا ہے جب کئی مغربی ممالک نے فلسطینی مملکت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان میں برطانیہ اور فرانس بھی شامل ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران مملکت فلسطین کو تسلیم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ برطانیہ کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جاری وحشیانہ جنگ کو بند نہیں کرتا ہے تو مملکت فلسطین کو تسلیم کرلیا جائے گا ۔ کہا جا رہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارہ میں اسرائیل کے منصوبوں کیلئے انفرا اسٹرکچر کا کام چند مہینوں میں شروع ہوسکتا ہے جبکہ مکانات کی تعمیر ایک سال کے اندر شروع ہوسکتی ہے ۔ مغربی کنارہ میں تقریبا 30 لاکھ فلسطینی بستے ہیں جبکہ پانچ لاکھ اسرائیلی سیٹلرس بھی رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اسرائیل کے ایک وزیر نے بھی مملکت فلسطین کے تصور کو ہی ختم کردینے کا انتباہ دیا تھا اور اب بنجامن نتن یاہو نے بھی اسی ارادہ کا اظہار کیا ہے ۔

نیتن یاہو نے قطر کیخلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کرلیا

تل ابیب : 11 (ستمبر ایجنسیز ) اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے دوحہ پر اسرائیل کے تازہ ترین حملے کے بعد قطر کے ساتھ کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں قطر اور دہشت گردوں کو پناہ دینے والے تمام ممالک سے کہتا ہوں کہ یا تو انہیں ملک بدر کریں یا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو ، ہم کریں گے۔ نیتن یاہو نے دوحہ میں منگل کو حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے والے حملے کا دفاع کرتے ہوئے ایک ویڈیو خطاب میں اس بات کا اعلان کیا۔اگرچہ حماس کی کوئی بھی سینئر سیاسی شخصیت ہلاک نہیں ہوئی ، حماس نے پانچ نچلے درجے کے ارکان کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے ، جن میں غزہ میں گروپ کے رہنما اور اس کے اعلی مذاکرات کار خلیل الحیا کا بیٹا اور تین باڈی گارڈز بھی شامل ہیں۔اپنے بیان میں نیتن یاہو نے حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے تشبیہ دی ، جسے واشنگٹن نے اپنی نام نہاد “دہشت گردی کے خلاف جنگ” شروع کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔انہوں نے قطر پر حماس کے رہنماؤں کو “حویلیوں میں” مالی اعانت اور پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے دہشت گردوں کا شکار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بالکل وہی کیا جو امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کے دہشت گردوں کے ساتھ کیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی تعریف کرنے والے ممالک کو اب اسرائیل کی مذمت کرنے پر “خود سے شرمندہ ہونا چاہیے”۔اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے لندن میں ڈیلی میل کو بتایا کہ اسرائیل نے الحیا کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہا تھا۔نیتن یاہو پر یرغمالیوں کے خاندانوں کی طرف سے بھی جنگ بندی کے مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔قطر نے مصر اور امریکہ کے ساتھ ثالثی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے اور جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران حماس کے وفود باقاعدگی سے دوحہ اور قاہرہ کا سفر کرتے رہے ہیں۔
قطر نے فوری طور پر نیتن یاہو کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے “لاپرواہی” اور “مستقبل میں ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کی واضح دھمکیاں” قرار دیا۔دوحہ میں حماس کے سیاسی دفتر کی میزبانی قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے معاہدوں کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ثالثی کی کوششوں کا حصہ ہے۔