کوال ٹائیگر ریزرو میں 166اندرماں مکانات کی تعمیر کا فیصلہ

   

عہدیداروں نے دی منظوری ۔ تعمیرات کا فیصلہ قوانین کے یکسر مغائر
حیدرآباد 25 نومبر ( سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت نے اندراماں اسکیم کے تحت مکانات کی تعمیر کی ذمہ داری عہدیداروں کو دی ۔ عہدیداروں نے کوال ٹائیگر ریزرو کے اندر 166 اندراماں گھروں کی تعمیر کی منظوری دیدی ہے ۔ ملک میں جنگلات کے تحفظ اور شیروں کے ذخائر کو کنٹرول کرنے والے قوانین کے مطابق ٹائیگر ریزرو کے اندر مستقل تعمیرات کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ عہدیداروں نے کوال ٹائیگر ریزرو کے بنیادی اور جفر علاقوں میں مکانات کی تعمیر کی اجازت دی ۔ اہلکاروں نے پوڈو زمین کے اندر ایسے مکانات کی اجازت بھی ہے جس کیلئے فائدہ اٹھانے والوں کو ROFR ایکٹ کے تحت پٹے دئیے گئے تھے ۔ تاہم قانون کے مطابق پوڈو زمین کے پٹے صرف زرعی سرگرمیوں کیلئے استعمال کئے جانے ہیں ۔ ایک دہائی میں پہلی بار کاول ٹائیگر ریزرو جو شیروں سے محروم تھا ایسا لگتا ہے کہ دو شیرنی نے اپنے گھر کے طور پر انتخاب کیا ہے ۔ ایک تریانی میں اور دوسری ریزرو کے لکشیٹی پیٹ رینج میں ۔ محکمہ جنگلات کے عہدیدار نے کہا کہ یہ دونوں جنہیں ہم ابھی تک تیریانی مادہ اور لکشیٹی پیٹ مادہ کہہ رہے ہیں یہ تین ماہ سے یہیں ٹھہرے ہیں ۔ اور اگر کوئی نر ٹائیگر اپنے موجودہ علاقوں میں جانے کا فیصلہ کرتا ہے تو ہمارے پاس شیرنی کی افزائش بھی ہوسکتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق اندراماں ہاوزنگ کے انچارج اہلکاروں کو پہلے کاول ٹائیگر ریزرو کے اندر یا پوڈو زمینوں میں مکانات کی تعمیری اجازت اور اسے منظور کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا لیکن اب 166 مکانات کی اجازت کے ساتھ کئی کو گراونڈ کردیا گیا ۔ ٹائیگر ریزرو اہلکاروں نے یہ معاملہ ضلعی ریونیو حکام کو پیش کیا اور ٹائیگر ریزرو کے اندر اور پوڈو زمینوں میں خلاف ورزیوںکا مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد تعمیراتی کام کو روک دیا گیا ۔ ٹائیگر ریزرو کے دیوینی گوڈیم رینج میں مکانات کی تعمیر کیلئے درختوں کو کاٹ کر صفائی کی گئی ۔ اس مقام پر 38 اندراماں مکانات میں سے 14 مکانات کی تعمیر شروع کی گئی ۔ بے گھر افراد کیلئے مکانات دینے زمینی سطح پر سیاست دانوں کا دباؤ ہے جس سے عہدیدار بھی اراضی کیلئے منظوری دے رہے ہیں ۔ حکام کو اندراماں مکانات کے لیے ریونیو اراضی فراہم کرنی چاہئے ۔ اگر محکمہ جنگلات شکایت کرنا ہے تو کام کو روک دینا پڑے گا اور اگر خاموش رہا تو وہ جوابدہ ہوں گے ۔ دونوں ہی صورتوں میں فائدہ اٹھانے والوں کے لیے نقصان دہ دکھائی دے رہا ہے ۔۔ ش