کورونا ’’اس سے بھی برا وقت آنے والا ہے ‘‘: ڈبلیو ایچ او

,

   

امریکہ سمیت متعدد یوروپی ممالک میں جاریہ ہفتہ سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا آغاز
1918ء ، 1957ء اور 1968ء میں پیش آئے وباء کی دوسری لہر کا حوالہ

جنیوا ۔ 21 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) کوروناوائرس انفیکشن سے پوری دنیا میں تباہی کا عالم ہے۔ عالمی ادارہ صحت روزانہ اس حوالہ سے اہم معلومات اور مشورے جاری کررہا ہے۔ آج ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان پر یقین کریں ’’سب سے برا وقت ابھی آنے والا ہے، آئیے اس وباء کو سب مل کر کریں۔ یہ ایسا وائرس ہے جس سے اب بھی لوگ سنبھل نہیں پائے ہیں۔ انہوں نے تمام ممالک کو سنبھل جانے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت سے بھی برا وقت ابھی آنے والا ہے‘‘۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے رکن ممالک کو خبردار کیا ہے کہ جلد بازی میں پابندیاں اٹھانے سے دنیا میں وائرس دوبارہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔منگل کو ڈبلیو ایچ او کے سینئر اہلکار ڈاکٹر تکاشی کاسائی نے کہا، ’’یہ لاپرواہی کا وقت نہیں بلکہ ہمیں خود کو آگے ایک نئی طرز زندگی کیلئے تیار کرنا ہوگا‘‘۔ صحت کے عالمی ماہرین کے خدشات ایک ایسے وقت پرسامنے آرہے ہیں جب امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک نے اس ہفتے سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا آغاز کر دیا ہے۔پیر کو امریکہ کی کچھ ریاستوں میں کاروبار و صنعت کو بڑے پیمانے پر کھول دیا گیا جبکہ جرمنی، اٹلی اور اسپین جیسے ملکوں میں پابندیاں مرحلہ وار اور بتدریج انداز میں اٹھانے کی شروعات کر دی گئی ہیں۔ آسٹریلیا نے کہا ہے کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد قابو میں آنے کے بعد وہاں آئندہ ہفتے سے ہاسپٹلس میں معمول کے آپریشن بحال کردیئے جائیں گے۔حکومتوں کا اصرار ہے کہ جہاں جہاں بھی نقل و حرکت میں نرمی کی جا رہی ہے وہاں لوگوں کو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے اور حفظان صحت کی ہدایات کی پاسداری کرنا ہوگی لیکن صحت کے ماہرین کو تشویش ہے کہ ہر جگہ اس پر عمل درآمد یقینی بنانا مشکل ہوگا۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ ایسے میں کورونا وائرس کی دوسری لہر پھیل سکتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق اس کی بڑی مثال 1918میں انفلوئنزا کی تباہ کن وبا ہے، جس میں پانچ کروڑ سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ یہ وبا بظاہر تھم جانے کی بعد بار بار لوٹتی رہی اور ہر دفعہ پہلے سے زیادہ مہلک ثابت ہوئی۔ 1957 اور 1958میں فلو کی وبا نے بھی متعدد مرحلوں میں انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا۔اسی طرح 2009میں سوائن فلو کی وبا کا آغاز امریکہ جیسے ممالک میں اپریل میں ہوا لیکن اس کی دوسری لہر نے کئی ماہ بعد موسم خزاں کے دوران ایشیا کے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
صحت کے عالمی ماہرین اس وقت دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کے رجحانات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور کورونا کی دوسری لہر کے حوالے سے دنیا سے بھر سے ملنے والے شواہد کا جائزہ لے رہے ہیں۔ایسے میں تین ممالک سنگاپور، جرمنی اور چین سے کچھ تشویشناک رجحانات سامنے آئے ہیں۔ ان تینوں ملکوں میں کیسز کی تعداد قابو میں آنے کے بعد بعض مقامات میں پھر سے یکایک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ماہرین کا خیال ہیکہ جب تک کوروناوائرس کی ویکسن ایجاد نہیں ہوتی، وباء کی روک تھام کے لیے نقل و حرکت پر جلد بازی میں پابندی اٹھانا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔