ہماری خامشی اے دوست افسانہ سہی لیکن
زباں بہکے تو افسانہ بھی افسانہ نہیں رہتا
کورونا بحران ‘ حکومت اور اپوزیشن
کورونا وائرس نے ساری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے ۔ دنیا کا شائد ہی کوئی ملک ایسا ہوگا جس میں اس بحران نے خوف و دہشت کا ماحول پیدا نہ کردیا ہو۔ کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا جہاں عام زندگی درہم برہم ہوکر نہ رہ گئی ہو بلکہ ساری زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے ۔ ہندوستان کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں ہے ۔ انتہائی شدید بحران کی کیفیت ہندوستان میں بھی پائی جاتی ہے ۔ سارے ملک میں لاک ڈاون ہے ۔ اس لاک ڈاون میں کچھ نرمی کے ساتھ 31 مئی تک توسیع بھی کردی گئی ہے ۔ تاہم اس ساری صورتحال میں ایک پہلو ایسا ہے جو قابل غور ہے ۔ مرکزی حکومت کا جہاں تک سوال ہے وہ اس معاملے سے نمٹنے میں پوری طرح الجھن کا شکار نظر آتی ہے ۔ کوئی اقدام ایسا نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے صورتحال پر قابو پانے میں مدد مل سکے یا پھر ملک کے عوام ہی کو کوئی راحت مل سکے ۔ حکومت کے اقدامات کے نتیجہ میں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ چاہے وہ مائیگرنٹ ورکرس ہوں یا پھر یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والے غریب عوام ہوں۔ لاک ڈاون میں مسلسل توسیع کے نتیجہ میں مڈل کلاس طبقہ بھی بری طرح سے متاثر ہونے لگا ہے ۔ حکومت کا جہاں تک سوال ہے وہ بے تکے دعوے کرنے میں مصروف ہے ۔ کورونا سے لڑائی کے نام پر ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن کا اس وبائی مرض سے مقابلہ کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ تازہ ترین اعلان کے مطابق حکومت نے کوئلہ اور کانکنی کے شعبہ میں اصلاحات کا اعلان کیا ہے جبکہ اس کا کورونا سے کیا تعلق ہوسکتا ہے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اسی طرح حکومت بے ہنگم دعوے بھی کر رہی ہے ۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کا ادعا ہے کہ لاک ڈاون کے دوران 80 کروڑ خاندانوں کو مفت راشن فراہم کیا گیا ہے ۔ یہ غلط بیانی کی انتہاء ہے ۔ ہندوستان کی آبادی 130 کروڑ ہے ۔ اس میں 80 کروڑ خاندان موجود ہونے کا دعوی انتہائی بے بنیاد ہے ۔ اگر ایک خاندان تین افراد کو بھی شامل کیا جائے تو ملک کی آبادی 240 کروڑ سے متجاوز ہوجائے گی ۔ بعد میں اسمرتی ایرانی نے کہا کہ انہوں نے در اصل 80 کروڑ افراد کو راشن پہونچانے کی بات کہی تھی ۔
اگر ان کے دوسرے بیان کو ہی درست مان لیا جائے تو یہ بھی حقیقت پر مبنی ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ اگر 80 کروڑ ہندوستانیوں کو راشن فراہم کردیا جائے تو مائیگرنٹ ورکرس کی آج جو حالت ہے وہ ہرگز نہیں ہوتی ۔ وہ پیدل سینکڑوں کیلومیٹر کا سفر کرنے پر مجبور نہیں ہوتے ۔ ریل کی پٹریوں پر ان کی جانیں نہیں جاتیں۔ ٹرک اور لاریوں کے حادثات میں وہ بے موت نہیں مرتے ۔ بھوک مری اور فاقہ کشی کی جو صورتحال آج پائی جاتی ہے وہ ہرگز نہیں ہوتی ۔ حکومت کے دعووں کے دوران اپوزیشن کا رول بھی انتہائی بے اثر ہوکر رہ گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ لاک ڈاون نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے خول میں بند کردیا ہے ۔ حکومت کے دعووں پر سوال کرنے اور لاک ڈاون کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے سوشیل میڈیا اور میڈیا میں حکومت کے دعووں کی قلعی کھولی جاسکتی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو یومیہ بنیادوں پر اجاگر کیا جاسکتا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں شائد کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح سے حکومت نے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور لاک ڈاون اور کورونا وباء کے دوران بھی اپنے منصوبوں کو پورا کیا جا رہا ہے اسی طرح اپوزیشن نے بھی عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے منہ موڑ لیا ہے ۔ ان کی خاموشی غلط بیانی اور من مانی اقدامات کرنے میں حکومت کی عملا حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔
جہاں حکومت کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے اور اپنے اقدامات میں عوام کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے کمزوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کے حق میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی سرگرمیوں کی یقینی طور پر ملک میں کوئی اجازت نہیں ہے لیکن سوشیل میڈیا اور میڈیا کے استعمال پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے ۔ کئی سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس ایسے ہیں جن کے ذریعہ اپوزیشن جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کے دعووں اور اعلانات پر سوال کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے اقدامات میں نقائص ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنے خول سے باہر نکل کر عوام کی بہتری کیلئے نتائج کی پرواہ کئے بغیر کمر کس لینے کی شدید ضرورت ہے ۔
