برلن ؍ نئی دہلی ۔ 16 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کا پھیلاؤ جاری ہے اور ایسے میں رمضان میں تراویح کے اجتماعات ہی نہیں بلکہ یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ کیا ایسے میں روزہ رکھا جانا چاہیے؟ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے تناظر میں ایک طرف مختلف مسلم مذہبی رہنما تراویح کے اجتماعات سے گریز کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، تو دوسری جانب بعض کی رائے یہ بھی ہے کہ روزے میں مدافعاتی نظام کم زور ہو جاتا ہے، جو کورونا وائرس کے خلاف زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو گا، ایسے میں اس بار رمضان کے روزوں کو بعد کے لیے ٹال دینا چاہیے۔ تاہم دوسری جانب ایسے مذہبی رہنما بھی موجود ہیں، جو نماز اور تراویح کے اجتماعات اور روزوں کو کسی صورت موقوف کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔کورونا وائرس کی وبا دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک بڑا امتحان ہے، کیوں کہ اسلام کے پانچ بنیادوں ستونوں میں سے تین اس وبا کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں نماز، روزہ اور حج شامل ہیں۔کئی مسلم اکثریتی ممالک میں موجودہ صورت حال میں تمام طرح کے اجتماعات روک دیے گئے ہیں، جب کہ وہاں فرض نمازوں کی باجماعت ادائیگی پر پابندی ہے اور مساجد بند کی جا چکی ہیں۔سعودی حکومت مسلمانوں کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ میں عمومی اجتماعات پر پابندی عائد کر چکی ہے، جب کہ اب رمضان بھی خطرے کی زد میں ہے، جو زیادہ تر ممالک میں اپریل کی تئیس تاریخ سے شروع ہونا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ روزے کی وجہ سے جسم پر پڑنے والا بوجھ موجودہ صورت حال میں اس لیے خطرناک ہو سکتا ہے، کیوں کہ یہ وائرس کے حق میں جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق روزہ صرف اس وقت رکھا جا سکتا ہے، جب وہ صحت یا زندگی کو خطرات میں نہ ڈالتا ہو۔ اسلامی احکامات کے مطابق حاملہ خواتین، بیمار اور کم زور افراد پہلے ہی روزے سے مستثنیٰ ہیں۔ تاہم موجودہ حالت میں تمام مسلمانوں کے لیے یہ استثنا ایک بالکل نئی بات ہو گی۔دوسری جانب طبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ روزے میں بھوک اور پیاس کی وجہ سے انسانی جسم ایک تناؤ کا شکار ہوتا ہے، جس کا فائدہ کورونا وائرس کو پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اسلامی دنیا میں فی الحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ رمضان کس انداز سے منایا جائے گا اور لگتا یوں ہے، جیسے اس بار لوگ انفرادی طور پر طے کریں گے کہ وہ رمضان کا انداز سے گزاریں۔ مصر کی جامعہ الازہر نے بھی اس معاملے پر مسلمانوں کو عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کو مدنظر رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔