کورونا سے نمٹنے اندھے عقائد کی ضرورت نہیں

   

رام پنیانی
آج ساری دنیا کورونا وائرس کی گرفت میں ہے۔ اس کا آغاز چین سے ہوا لیکن فی الوقت اس وائرس نے مختلف ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہندوستان بھی شدید متاثر ہوا ہے اور اس خوردبینی وائرس کے باعث اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئے ہندوستان میں مختلف اقدامات کئے جارہے ہیں اور مزید اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے۔
دیگر چیزوں کے علاوہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں جہاں احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں مثال کے طور پر اکثر ملکوں میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا ہے۔ لوگوں کو ان کے گھروں تک محدود کردیا گیا تاکہ لوگ اس مہلک وائرس کی زد میں آنے سے محفوظ رہیں۔ دوسری طرف توہم پرستی کا شکار لوگ وائرس سے لڑائی میں عجیب و غریب طریقے استعمال کررہے ہیں۔ یہی ہماری مشکل ہے۔ خاص طور پر ہندوستان میں صحت کے شعبہ کو لے کر اکثر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا اور اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمراں اور مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے والے عناصر مذہب پر مبنی طریقوں کو متوازی طور پر فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ یہ ایسے عناصر ہیں جن سے ہزاروں تنظیمیں اور لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قدیم ہندوستانی طریقوں میں انسانی آفات سے نمٹنے کے تمام اجزا موجود ہیں، حالانکہ یہ توہم پرستی اور اس طرح کی چیزوں کی اندھی تقلید ہے۔ ہمارے ملک میں جو اندھی تقلید پر عمل کیا جارہا ہے دو پریشان کرنے والی مثالیں جان بوجھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ اندھے عقائد کس قدر ہمارے معاشرے کی جڑوں میں پیوست ہوچکے ہیں اور اندھی تقلید و توہم پرستی میں کس قدر ہمارا معاشرہ ڈوب چکا ہے۔ آج توہم پرستی ہماری موجودہ سماجی زندگی میں سرائیت کر گئی ہے اور ایسے ہی دوڑ رہی ہے جیسے جسم میں خون دوڑتا ہے۔
ویسے بھی ہندوستان میں توہم پرستی کا دور دورہ ہے۔ معقولیت پسندوں کو مذہب کے ٹھیکے دار قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ڈاکٹر نریندر ڈھابولکر، گوئند پنسارا اور ایم ایم کلبرگی جیسی معقولیت پسند شخصیتوں کو قتل کردیا گیا اور ان کو قتل ہوئے طویل عرصہ بھی نہیں ہوا۔ انہیں کیوں قتل کیاگیا؟ اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ اندھے عقیدے کو فروغ دینے والے اور اس پر عمل کرنے والوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ دراصل ایسے توہم پرست اور اندھے عقائد کی تقلید کرنے والے گوشہ کو ہندوستان میں نسلی قوم پرستی کے عروج کے ساتھ ہی حوصلہ افزائی ملنے لگی۔

اتوار 22 مارچ 2020 کو ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک یومی جنتا کرفیو کا اعلان کیا اور عوام پر زور دیا کہ وہ اپنی بالکونیوں میں آئیں، تالیاں بجائیں، تھالیاں بجائیں، دیگر برتن بجاتے ہوئے محکمہ صحت کے کارکنوں اور ماہرین کی جانب سے انجام دی جارہی خدمات کی ستائش کریں۔ یہ دراصل شعبہ صحت کے ماہرین کی خدمات کے عوض ان کے تئیں ایک جذبہ اظہار ممنویت تھا، لیکن بعض مقامات پر مودی کی اس اپیل نے غلط کام کیا، ایک نیا موڑ اختیار کیا، لوگوں نے جلوس نکالے، اس طرح وہ سماجی دوری سے متعلق ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ یہ لوگ شنکھ پھونک رہے تھے، برتن بجا رہے تھے اور تالیاں وغیرہ مار رہے تھے۔ اگرچہ کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں تھا لیکن مہاراشٹرا میں بی جے پی کی لیڈر شائینہ این سی نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی زبردست ستائش کی اور کہا کہ وزیر اعظم نے زور و شور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے بہت اچھا کام کیا کیونکہ ان آوازوں سے بیکٹیریا؍ وائرس مر جائیں گے۔ شائینہ کے مطابق وزیر اعظم نے جو اپیل کی ہے وہ دراصل پراناس سے حاصل کئے گئے سبق کا نتیجہ ہے جس میں کہا گیا ہیکہ آوازیں نکالنے، شنکھ بجانے سے بیکٹیریا اور وائرس مر جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا بالخصوص واٹس اپ پر اسی قسم کے پیامات کا ایک نہ تھمنے والا طوفان جاری تھا۔ دوسری پریشان کرنے والی چیز سوامی چکرپانی مہاراج کے اقدامات تھے۔ انہوں نے وائرس سے بچاؤ کے لئے گاؤ موترا پارٹی منعقد کی جہاں لوگوں میں گائے کا پیشاب تقسیم کیا گیا اور بے شمار افراد نے یہ سمجھتے ہوئے گائے کا پیشاب نوش کیا کہ اس سے کورونا وائرس کو روکنے اور صحت یاب ہونے میں مدد ملے گی۔ ایک اور بی جے پی لیڈر نے ایسا ہی پروگرام منعقد کیا جس میں گائے کا پیشاب پینے کے نتیجہ میں ایک شخص بیمار ہوگیا۔ بی جے پی قائدین نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آسام سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی سمن ہری پریا نے پرزور انداز میں کہا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے گائے کا گوبر بہت کارآمد ہوتا ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ گائے کے پیشاب اور گوبر کے فروغ کی اپیلیں ان لوگوں کی جانب سے آئی ہیں جو بی جے پی نظریات کے حامل ہیں۔

جب سے ملک میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے اقتدار میں آئی تب سے ہی گائے کا پیشاب خبروں میں چھایا رہا ہے۔ 1998 میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے نے اقتدار سنبھالا اور پچھلے 20 برسوں سے لوگ گائے کے پیشاب کے بارے میں بہت کچھ خبریں پڑھ اور سن رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک قریبی ساتھی مسٹر شنکر بھائی واگڈ کا جو گجرات سے تعلق رکھتے ہیں دعویٰ ہے کہ 76 سال کی عمر میں بھی وہ صحت مند اور چاق و چوبند ہیں ان کی صحت کا راز گائے کا پیشاب ہے۔ اس طرح کے دعوے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی جانب سے بھی کئے گئے۔ پارلیمنٹ میں وہ بھوپال کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی بتادوں کہ وہ مالیگاوں دہشت گرد دھماکوں کی ایک ملزمہ ہے۔ سادھوی کا دعویٰ ہے کہ وہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا تھیں لیکن گائے کے پیشاب کے استعمال سے صحتیاب ہوگئیں۔ یہ اچھا ہوا کہ ان کا علاج کرنے والے سرجن نے ہمیں سچائی بتائی کہ انہوں نے سادھوی کی تین مرتبہ سرجری کی ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کیسے ان دعووں کو قبول یا رد کریں جس میں کہا جاتا ہے کہ ہر خطرناک بیماری کا علاج گائے کے پیشاب میں پوشیدہ ہے اور یہ ایک جادوئی اثر رکھتا ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ اس طرح کا سوال فضاء میں گونج رہا ہے بی جے پی حکومت گائے کے پیشاب اور پنچ گاویا (یہ دراصل گائے کا گوبر، پیشاب، دودھ، دہی اور گھی کا مرکب ہوتا ہے) پر تحقیق کے لئے کثیر فنڈس الاٹ کررہی ہے۔ مرکزی ریسرچ ایجنسیز گائے کے مصنوعات بشمول ہندوستانی گائے کی خصوصیات پر ریسرچ کے لئے زور دے رہی ہیں۔
میڈیکل سائنس میں جب کوئی دوا متعارف کروائی جاتی ہے تو اس کے لئے بائیوکیمیکل اسٹڈیز، طبی آزمائش اور مابعد تعارف جائزہ کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن ان گائے کی مصنوعات کی صورت میں جو رہنمایانہ خطوط ہیں وہ خالص عقیدہ ہے اور مختلف طریقوں سے انہیں بنایا جاتا ہے۔ جہاں تک گائے کے پیشاب کا سوال ہے ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بھی دوسرے جانوروں کے پیشاب کی طرح ہوتا ہے۔ یہ جسم کے فاسد مادوں کا ایک مرکب ہوتا ہے جس میں 90 فیصد پانی پایا جاتا ہے۔ یوریا، کریاٹینین، سلفیٹس اور فاسفیٹس وغیرہ بھی پیشاب میں پائے جاتے ہیں۔ بی جے پی نظریات کے حامل لوگ گائے کا پیشاب پینے اور پلانے کی باتیں کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے ذریعہ ہر مرض کے علاج کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس طرح کے دعووں کو ثابت کرنے کے لئے کسی قسم کی کلینیکل اسٹڈیز نہیں کی جاتی اور نہ ہی کی گئی، بلکہ یہ خالصتاً نظریاتی تناظر میں کئے جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بعض عناصر گائے کے پیشاب کو قیمتی ظاہر کرنے کا پروپگنڈہ لوگوں پر ٹھونستے ہیں۔
یہ دراصل ہندو قوم پرستی سے متعلق پراجکٹ کا حصہ ہے۔ یہ قوم پرستی چاہتی ہے کہ معاشرہ پر پیدائش پر مبنی ذات پات اور جنس کی زمرہ بندی سے متعلق قدیم اقدار نافذ کرے۔ متوازی طور پر یہ طاقتیں یہ کہنا چاہتی ہیں کہ قدیم ہندوستان نے پہلے ہی سائنس و ٹکنالوجی کے شعبہ نے بے شمار کارنامے انجام دیئے ہیں چاہے وہ پشپک ومان ہوں یا پھر پلاسٹک سرجری، بائیو ٹکنالوجی، ٹیلی ویژن ہو یا انٹرنیٹ یہ بحیثیت مجموعی ایک ایسے سیاسی ایجنڈہ کا حصہ ہے جہاں سنہرے ماضی کے نام پر عقیدہ پر مبنی سوچ پیش کی جارہی ہے۔ یہ دراصل ہندو روایتی اقدار کی بالادستی کو تھونپنے کی کوشش ہے۔ گائے کے معاملہ میں ایک طرف گائے کے گوشت کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے اور اس کے لئے ہجومی تشدد یا لنچنگ کا سہارا لیا جاتا ہے اور دوسری طرف گائے کی مصنوعات کو فروغ دیا جارہا ہے۔

یہ فروغ بھی گائے کے پیشاب کے تجارتی استحصال کا باعث بنا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر بابا رام دیو کے پٹن جلی پراڈکس اور دیگر مصنوعات میں گائے کا پیشاب استعمال کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے یہی سمجھا جارہا ہے کہ آر ایس ایس نے جو سوچ و فکر پھیلائی ہے وہ موزوں ہے لیکن یہ سائنس اور عقل و دلیل کے بالکل خلاف ہے۔
آر ایس ایس نے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لئے وگیان بھارتی قائم کیا جس نے پراناس وغیرہ سے اقتباسات اخذ کرتے ہوئے پیش کئے اور اسے سائنس کا نام دیا۔ مزید برآں یہ کہ ناگپور میں اس قسم کی سوچ کو فروغ دینے کی خاطر ایک وگیان انوسندھان کیندرا قائم کیا گیا، حالانکہ اس طرح کی سوچ= عقل اور دلیل کے اعتبار سے ناقابل فہم ہے اور نہ سائنسی طریقوں سے جانچ پر پوری اترتی ہے۔
ایسے پروپگنڈوں سے ترقی کا عمل سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے طریقے ہیں جو کورونا وائرس کے عالمی وباء سے نمٹنے میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں، یہ نامعقول چیزیں ہیں۔ حکمراں جماعت کے ذمہ داروں کو آگے بڑھتے ہوئے اس طرح کi خطرناک اور تباہ کن عقائد اور عمل کو ختم کرنا چاہئے۔