کپل سبل
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے مودی حکومت نے کوئی قومی منصوبہ نہیں بنایا ہے حالانکہ اسے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ایکٹ کے تحت اس وائرس سے پیدا شدہ بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی قومی منصوبہ بنانا چاہئے تھا۔ حکومت نے لاک ڈاون نافذ کیا ٹھیک ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا ملک طویل عرصہ تک لاک ڈاون کا متحمل ہوسکتا ہے؟ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ لاک ڈاون سے قومی معیشت پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ جس انداز میں لاک ڈاون کو طوالت دی جارہی ہے یہ کوئی دانشمندانہ پالیسی نہیں ہے۔ اگر حکومت قومی منصوبہ بناتی تو حالات مختلف ہوتے۔ مرکزی حکومت نے ایسا لگتا ہیکہ کووڈ ۔ 19 سے نمٹنے کے لئے قومی منصوبے کے نہ ہونے کے باعث اپنی تمام تر ذمہ داریاں ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ایکٹ 2005 کے تحت ریاستوں کے تفویض کردی ہیں۔ مرکز نے ریاستوں کو ذمہ داریاں تو سونپی ہیں لیکن بنیادی سہولتیں نہیں دی ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم انسانی اور جسمانی دونوں کے ساتھ ساتھ مناسب مالیتی وسائل کا حوالہ دے سکتے ہیں جہاں حکومت نے غفلت سے کام لیا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ریاستی حکومتوں کو سونپتے ہوئے مذکورہ نکات کو نظرانداز کردیا۔ حالانکہ ریاستی حکومتیں اس عالمی وباء سے نمٹنے کے موقف میں نہیں ہیں۔
اس کے باوجود ریاستی حکومتیں دستیاب شکستہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ وہ قابل ستائش اقدامات کررہی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کا کردار محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تاحال انہوں نے وقت بہ بوقت ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب کیا اور چیف منسٹرس کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اجلاس طلب کئے۔ انہیں تو نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ایکٹ کے تحت قومی منصوبہ بنانا چاہئے تھا۔ جہاں تک نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھاریٹی (NDMA) کا سوال ہے اس نے اس سلسلہ میں ایک خصوصی منصوبہ بنانے کے لئے کوئی تیاریاں نہیں کیں، جبکہ جنوری کے اواخر میں عالمی ادارہ صحت اس وائرس کے باعث صحت عامہ کی ایمرجنسی کا اعلان کررہا تھا۔
مودی حکومت کی کارکردگی کے باعث یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ آخر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایمرجنسی اعلان کئے جانے کے اندرون 7 ہفتے بھی تفصیلی منصوبے کیوں نہیں بنائے گئے۔ 24 مارچ کو وزیر اعظم نے وائرس کے خلاف دوسرا قدم اٹھاتے ہوئے قومی سطح پر لاک ڈاون کا اعلان کیا۔ اب ہم اپریل کے چوتھے ہفتے میں ہیں اب بھی حکومت نے کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ وزارت امور داخلہ کے معتمد نے اس قانون کے تحت قومی مجلس عاملہ (NEC) اجلاس کی قیادت کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو یہ احکامات جاری کئے ہیں کہ وہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے ممکنہ اقدامات کریں۔ مرکزی وزارت امور داخلہ وقت بروقت ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کے لئے تجاویز اور مشورے جاری کررہی ہے۔ 27 مارچ 2020 کو اس نے ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ نقل مکانی کرنے والے مزدوروں، صنعتی ورکروں اور غیر منظم شعبہ سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو مدد فراہم کریں جو 21 روزہ لاک ڈاون سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے لئے مختلف ایجنسیوں کے توسط سے انہیں غذا، آسرا اور بنیادی ضروریات فراہم کریں۔ ریاستوں کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ نظام تقسیم عامہ (PDS) کے ذریعہ کمزور اور غریب طبقات کو مفت غذا اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کی گنجائش نکالیں۔
28 مارچ 2020 کا دن تھا جب مرکزی وزارت امور داخلہ نے پہلی مرتبہ ریاستوں میں نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی نقل و حرکت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر ردعمل کا اظہار کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومتیں اس وقت تک ان پھنسے ہوئے مزدوروں کے لئے ریلیف کیمپس قائم کریں جب تک لاک ڈاون برخاست نہیں کیاجاتا۔ یہ بھی کہا گیا کہ سماجی دوری نامزد آسرا گھروں یا شلٹرس میں بھی اپنائی جائے۔ ریاستوں کو اسٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ میں دستیاب فنڈس استعمال کرنے کا مجاز گردانا گیا۔
29 مارچ کو مرکزی وزارت امور داخلہ نے ایک اور اڈوائزری جاری کی جس میں غریبوں بشمول لاک ڈاون میں پھنسے ہوئے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کے لئے عارضی آسرا گھروں اور کھانے کے مناسب انتظامات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیاگیا۔ مرکزی وزارت امور داخلہ نے مزید ہدایت دی کہ صنعتوں، دکانات اور تجارتی اداروں کے آجرین کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ورکروں کو ان کی تنخواہیں ان کے کام کے مقامات پر بنا کسی تخفیف ادا کریں اور یہ ادائیگی لاک ڈاون کے دوران عمل میں آئے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے کرایوں داروں کے حق میں بھی ہدایات جاری کیں۔ اس طرح کی ہدایات جاری کرنے کا ذریعہ اختیار مبینہ طور پر قانون کی دفعہ 10(2) تھی۔
قانون کی دفعہ 10(2)مرکزی وزارت امور داخلہ کی زیر قیادت نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی (NEC) کو اس کی ذمہ داریاں نبھانے کی مجاز گردانتی ہے۔ مرکزی وزارت امور داخلہ جس چیز کا حوالہ دینے میں ناکام رہی وہ یہ ہے کہ این ای سی سیکشن 10(2)(b) کے تحت ایک منصوبہ تیار کرے گی جسے این ڈی ایم اے کی جانب سے منظوری دی جائے گی اور مختلف وزارتیں اس سلسلہ میں منصوبے کی تیاری کے لئے رہنمایانہ خطوط بنائیں گے۔ این ای سی ان وزارتوں کی جانب سے تیار کردہ منصوبوں پر عمل آوری کی نگرانی بھی کرے گی۔ یہ اس منصوبہ کے تناظر میں ہے جو وزارت اپنے متعلقہ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ منصوبوں کو تیار کرے گی اور اس کے مطابق ہی اڈوائزری یا مشورے جاری کئے جائیں گے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ این ای سی نے کوئی پلان تیار کیا ہے جو منظوری کے لئے این ڈی ایم اے کو پیش کیا جانے والا ہے اور نہ ہی مختلف وزارتوں نے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ منصوبے بنائیں ہیں۔ این ڈی ایم اے وزیر اعظم کی زیر قیادت کام کرتا ہے اور اس نے مرکزی حکومت کے تئیں ذمہ داری سے دامن جھاڑ لیا ہے اور قانون کی دفعات کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے وزارت امور داخلہ کو اس طرح کی ہدایات جاری کرنے کا مجاز گردانہ ہے، یہ بھی قانون کے خلاف ہے۔
ہم چاہیں گے کہ وزیر اعظم ملک کے عوام کو راحت کاری کے اقل ترین معیار کے بارے میں بتائیں تاکہ لوگوں کو آفات سے متاثر ہونے والے افراد کو فراہم کی جانے والی راحت کے بارے میں معلوم ہوسکے لیکن غریبوں کو اس نازک گھڑی میں راحت فراہم کرنے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بجائے مرکزی حکومت نے یہ ذمہ داریاں ریاستی حکومتوں کی جانب موڑ دی ہیں۔ ایسے میں ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں اور رہنمایانہ خطوط کے بغیر وہ اقدامات ۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج کی تاریخ تک بھی حکومت نے کوئی قومی منصوبہ نہیں بنایا۔ ہم تمام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر شلٹرس یا آسرا گھروں میں صورتحال بدترین رہے وہاں حفظان صحت کا ناقص انتظام رہے، طبی سہولتوں سے بھی وہ محروم رہے، غذائی انتظامات خامیوں سے پر رہیں اور صاف پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ ہو تو پھر ریاستی حکومتیں لوگوں کو مناسب طور پر غذائی سربراہی بھی نہیں کرسکتیں۔ 29 مارچ کو وزارت امور داخلہ کی جانب سے جو اڈوائزری جاری کی گئی اس میں مخصوص ہدایات کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ صنعتوں، دکانات اور تجارتی اداروں کے آجرین اپنے تمام ورکرس کو تنخواہیں فراہم کرے جبکہ اس قانون میں ایسا نہیں ہے، بلکہ قانون کے تحت یہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لاک ڈاون کے دوران وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کے یہاں جو فنڈس دستیاب ہے ان سے تنخواہیں ادا کرے۔
جہاں تک لاک ڈاون کے تجارتی اداروں پر اثرات کا سوال ہے چھوٹے کاروبار تو لاک ڈاون سے تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کی مالی حالت اس قدر خراب ہے کہ ان میں سے کئی تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر ان پر جرمانے عائد کئے جائیں گے اور قانونی کارروائی کی جائے گی۔ آپ کو بتادیں کہ قانون کی دفعہ 10(2) اس قسم کی ہدایات جاری کرنے کا این ای سی کو مجاز نہیں گردانتا۔
آپ کو بتادیں کہ مودی حکومت نے پرائم منسٹر کیرس فنڈ قائم کیا اور ہزاروں کروڑ روپے اس میں جمع کئے گئے حالانکہ پہلے ہی وزیر اعظم ریلیف فنڈ، نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فنڈ (NDRF) بھی موجود ہیں۔ آخرالذکر فنڈ 26 ستمبر 2010 میں قائم کیا گیا۔ ہمیں ان فنڈس میں دستیاب رقم کے حجم کے بارے میں معلوم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ فنڈس کورونا وباء کے خلاف لڑائی کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔
عوام کو راحت فراہم کرنے کی بجائے پہلے ہی سے موجود فنڈس سے استفادہ نہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کا پرائم منسٹرس سٹیزن اسسٹنس ریلیف ان ایمرجنسی سچویشن (Pm.cares) فنڈ قائم کرنا عجیب لگتا ہے حد تو یہ ہے کہ حکومت اس فنڈ میں رقومات جمع کرانے عوام سے درخواست کررہی ہے جبکہ عوام کو ہی پیسے اور راحت کی ضرورت ہے۔