کورونا وائرس کے آغاز سے ملک بھر میں سلسلہ وار 3 مرتبہ لاک ڈاؤن

   

Ferty9 Clinic

چندکاروباری اداروں کو اجازت ملنے پر سب سے زیادہ شراب کی فروخت، مساجد و عبادت گاہیں ابھی بھی بند

نظام آباد :7؍ مئی ( محمد جاوید علی کی خصوصی رپورٹ)کورونا وائرس وباء کے بعد ملک گیر سطح پر سلسلہ وار 3مرتبہ لاک ڈائون کرتے ہوئے تمام تجارتی کاروبار کو معطل کردیا تھا نہ صرف تجارتی کاروبار بلکہ چند سرکاری دفاتر کو بند کردیا تھا وزیر اعظم نریندر مودی 3 مرتبہ لاک ڈائون کا اعلان کیا تو چیف منسٹر چندر شیکھر رائو ے مرکزی حکومت کے لاک ڈائون میں مزید اضافہ کرتے ہوئے توسیع کی گئی اور ریاست گیر سطح پر کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے قابل ستائش اقدامات کیا ۔ ریاست کی معاشی صورتحال بدحالی کو دیکھتے ہوئے چیف منسٹر نے دو دن قبل منعقدہ کابینہ اجلاس میں ریاست میں لاک ڈائون کو 29 ؍ مئی تک توسیع کرتے ہوئے چند چیزوں میں نرمی برتی گئی اور بالخصوص شاپنگ مالک ، شراب کی دکانیں اور دیگر کاروباری اداروں کو کھول دینے کا اعلان کیا ۔ جیسے ہی چیف منسٹر نے اعلان کیا دوسرے دن صبح سے ہی شراب کی دکانات پر لمبی قطار دیکھنے کو ملی ۔ چلچلاتی دھوپ کی پرواہ کئے بغیر ہی صارفین نے لمبی لمبی قطاروں میں ٹھہر کر شراب کی بوتلیں حاصل کی اور سماجی دوری کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جبکہ چیف منسٹر واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ سماجی دوری اختیار نہ کرنے کی صورت میں ایک گھنٹہ میں ان کی دکانات کے لائسنس رد کردئیے جائیں گے ۔ پولیس کی نگرانی میں سماجی دوری کوئی لحاظ نہ رکھتے ہوئے شراب کی بوتلیں حاصل کرتے رہے اور نظام آباد ضلع میں ایک دن میں 6کروڑ روپئے کی شراب فروخت کی گئی ۔ اسی طرح شاپنگ مالس کھلتے ہی عوام کی چہل قدمی شروع ہوگئی ۔ کورونا وائرس ایک انتہائی مہلک وباء ہے اور اس کی دوا نہیں ہے آج تک بھی ڈاکٹروں کی جدوجہد جاری ہے اور ڈاکٹروں نے اپنے تجربوں سے انٹی بیٹک کے ذریعہ وباء کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں حکومت ابتداء میں تو سختی کے ساتھ پیش آئی مساجد ، مندر ، گرجا گھروں کو بند کردیا گیا اور ماہ صیام کا لحاظ بھی نہ رکھتے ہوئے چیف منسٹر نے یہاں تک کہہ دیا کہ عیدگاہ بھی نہ جائے کیونکہ عیدگاہ جانے سے ایک دوسرے ہاتھ ملاتے ہوئے بغلگر ہوتے ہیں اس سے وباء میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ایک دوسرے سے متاثر ہوسکتے ہیں لیکن شراب کی دکانیں میں ہجوم دیکھا جارہا ہے اس سے وباء کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا ہے اور باضابطہ پولیس کے بندوبست میںیہ کاروبار انجام دئیے جارہے ہیں ۔ نظام آباد شہر کو ریڈ زون قرار دیا گیا تھا اور نظام آباد کے کئی علاقہ کو کنٹیمنٹ کردیا گیا تھا اور آج بھی شہر کے دبہ کے علاقہ میں ایک نامدیواڑہ کنٹنمنٹ کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ نظام آباد ضلع میں بیرونی ملک سے آنے والے افراد کی تعداد 3 ہزار سے زائد ان تین ہزار سے زائد افراد کو کوارنٹائن کیا گیا تھا اور ان میں سے ایک پازیٹیو کیس ظاہر ہوا تھا اس کے علاوہ باقی 60 کیس میں سے 35 کیس دہلی دورہ کرنے والے جماعتی کے تھے اور باقی کیسس پرائمری اور سکنڈکنٹاکٹ کے بعد اس طرح جملہ 61 مثبت کیسس ظاہر ہوئے تھے اور ان میں سے 53 افراد کو گاندھی ہاسپٹل سے ڈسچار ج کردیا گیا صرف 8 کیسس دواخانہ میں زیر علاج ہے ۔ ان حالات میں قواعد پر سختی کے ساتھ مزید چند دن 29تاریخ تک عمل کرنا ناگزیر سمجھا جارہا تھا لیکن حکومت کی جانب سے اچانک لاک ڈائون میں توسیع کرتے ہوئے وہی پر ان چیزوں میں نرمی برتی گئی اس سے وباء پھیلنے کے امکانات ہیں کیونکہ نظام آباد ضلع پڑوسی ریاست مہاراشٹرا کے سرحد پر واقع ہے اور سرحد سے ہر روز کاروباری غر ض سے سینکڑوں افراد کا آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسکرینگ کے باوجود بھی وباء کا خطرہ ہے کیونکہ غیر قانونی طور پر انجام دئیے جانے والے کاروبار کی غرض سے چور راستوں سے بھی آسکتے ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو وائرس ہونے کی صورت میں یہ دوسروں کو پھیل سکتا ہے ۔ نظام آباد ضلع میں دہلی مرکز کے بعد جو وباء میں شدت پیدا ہوئی تھی اور مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا تھا ان حالات میں شاپنگ مالس اور دیگر خریدی کی غرض سے مسلمان بازاروں میں گھومنے سے وباء میں اگر شدت پیدا ہوگئی تو مسلمانوں کا نام پھر ایک مرتبہ بدنام ہونے کے امکانات ہیں ۔ 40 تا 45 دن گھروں میں رہتے ہوئے سختی کے ساتھ قواعدپر عمل آوری کی گئی ماہ صیام میں لاک ڈائون عبادتوں میں گذار نے کا بہترین موقع ہے جبکہ علماء ، مفتیان کی جانب سے بار بار اس بات کی خواہش کی جارہی ہے کہ ماہ صیام ، عیدالفطر سادگی کے ساتھ منائیں وباء کے دور میں شاپنگوں میں وقت گذارنے کے بجائے عبادتوں ، خیر خیرات کو ترجیح دیں تو بہتر ہوگا۔ بیشتر کاروبار غیر مسلم کے ہے اور غیر مسلم کے کاروبار کو فروغ دینے کی غرض سے یہاں پر خریدنا نا ممکن ہے اگر ناگہانی صورت پیدا ہوگئی تو بدنامی کے سوا ء اور کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے لہذا مسلمان ، علماء اور مفتیان کی اپیل پر عمل کرتے ہوئے شاپنگ کا بائیکاٹ کریں اور عید کو سادگی کے ساتھ مناتے ہوئے بدنامی سے بچیں۔